5 Dec 2017

"ختم نبوت کورس"سبق نمبر 10

"احتساب قادیانیت"

"ختم نبوت کورس"

سبق نمبر 10

ختم نبوت کے موضوع پر اکابرین امت کی عبارات پر قادیانی اعتراضات کا علمی اور تحقیقی جائزہ


جب قادیانی قرآن و احادیث سے اجرائے نبوت پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے اور لاجواب ہوجاتے ہیں تو پھر چند بزرگان دین کی عبارات کو ادھورا پیش کرکے اس سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب بھی قادیانی کسی بزرگ کی عبارت پیش کریں تو چند اصولی باتیں ذہن نشین کر لیں ۔ قادیانیوں کا دجل خود ہی پارہ پارہ ہوجائے گا ۔

1۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب قادیانیوں کے نزدیک بزرگوں کے اقوال کو مستقل حجت نہیں تو وہ بزرگوں کے اقوال کیوں پیش کرتے ہیں؟؟

کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"اقوال سلف و خلف درحقیقت کوئی مستقل حجت نہیں"

(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 389)

اس کے علاوہ مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا محمود نے لکھا ہے

"نبی کی وہ تعریف جس کی رو سے آپ (مرزاقادیانی) اپنی نبوت کا انکار کرتے رہے ہیں۔ یہ ہے کہ نبی وہی ہوسکتا ہے جو کوئی نئی شریعت لائے یا پچھلی شریعت کے بعض احکامات کو منسوخ کرے۔ یا یہ کہ اس نے بلاواسطہ نبوت پائی ۔ اور کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو۔ یہ تعریف عام طور پر مسلمانوں میں مسلم تھی"

(حقیقتہ النبوۃ صفحہ 122)

لیجئے خود مرزا محمود نے تسلیم کر لیا کہ مرزاقادیانی کے آنے تک مسلمان نبی اسی کو سمجھتے تھے جو نئی شریعت لانے والا ہو۔ جب خود قادیانی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں ایک ہی تعریف پائی جاتی تھی تو وہ پھر بزرگوں کی عبارات کو کیوں پیش کرتے ہیں؟؟

2۔ ہمارا دعوی یہ ہے کہ بزرگان دین میں سے کوئی ایک بزرگ بھی ایسا نہیں تھا جس کا یہ عقیدہ ہو کہ حضورﷺ کے بعد بھی کوئی نبی بن سکتا ہے اور فلاں شخص حضورﷺ کے بعد نبی ہے۔
قادیانی تاقیامت ایسی عبارت کسی بزرگ سے ثابت نہیں کر سکتے ۔

3۔ قادیانی جتنی بھی بزرگوں کی عبارات پیش کرتے ہیں ان میں اگر ،مگر، چونکہ، چنانچہ کی قیدیں لگی ہوتی ہیں۔ اور ایسی عبارات جن میں اتنی قیدیں لگی ہوں ان عبارات سے عقائد کے معاملے میں کوئی بددیانت ہی استدلال کرسکتا ہے۔

یاد رکھیں عقائد کے معاملے میں صرف نص صریح ہی قابل قبول ہوتی ہے۔

پھر جن بزرگوں کی عبارات قادیانی تحریف و تاویل کرکے پیش کرتے ہیں ان بزرگوں کا درج ذیل عقیدہ ان کی ہی کتابوں میں موجود ہے۔

1۔ آپﷺ پر نبوت ختم ہے۔
2۔ آپﷺکےبعد کسی بھی قسم کاکوئی نبی نہیں بن سکتا ۔
3۔ آپﷺکے بعد آج تک کوئی شخص نبی نہیں بنا۔
4۔ جس شخص نے حضورﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کیا۔ اس کو انہوں نے کافر ہی سمجھا۔

4۔ لے دے کے چند عبارات ہیں جن میں تاویل و تحریف کر کے قادیانی کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد بھی نئے نبی آسکتے ہیں۔

حالانکہ آج تک قادیانی کوئی ایک عبارت بھی ایسی پیش نہیں کر سکے جس میں یہ 4 باتیں پائی جاتی ہوں۔

1۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کا ذکر نہ ہو۔

2۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں آنخضرت ﷺکی ختم نبوت زمانی کے بعد کسی غیر تشریعی نبی کے اس امت میں پیدا ہونے کی صراحت موجود ہو۔

3۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں محض اجزائے نبوت یعنی سچے خواب وغیرہ یا بعض کمالات نبوت ملنے کا ذکر نہ ہو بلکہ امت کے بعض افراد کے لئے نبوت ملنے کا ذکر ہو۔

4۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں ایسا نہ ہو کہ اس کے سیاق و سباق میں تو ختم نبوت مرتبی کا بیان ہو اور قادیانی اس عبارت کو ختم زمانی کے ذیل میں بیان کررہے ہوں۔

(ختم نبوت زمانی اور ختم نبوت مرتبی کی تفصیل آگے آرہی ہے انشاء اللہ)

ہمارا دعوی یہ ہے کہ ان 4 شرطوں کے ساتھ آج تک کوئی قادیانی کسی بھی بزرگ کی کوئی ایک عبارت بھی پیش نہیں کر سکے۔

اور یہ اصول بھی یاد رکھیں کہ جب تک دعوی کرنے والے کے پاس اپنے دعوی پر دلیل موجود نہ ہو تو جس پر دعوی کیا جارہا ہے اس کے ذمے جواب دینا ضروری نہیں ہے۔


"شیخ محی الدین ابن عربی رح کی عبارات پر قادیانی اعتراضات کا علمی تحقیقی جائزہ"

قادیانی شیخ محی الدین ابن عربی رح کی عبارات سے بھی دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھی حضور ﷺ کے بعد نئے نبیوں کے آنے کے قائل ہیں۔

آیئے پہلے شیخ ابن عربی رح کی اس عبارت کا جائزہ لیتے ہیں جو قادیانی بطور اعتراض کے پیش کرتے ہیں۔

قادیانی کہتے ہیں کہ شیخ ابن عربی رح نے لکھا ہے کہ

"تشریعی نبوت کا دروازہ بند ہے۔ اور نبی کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں اس کا مطلب ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کے مخالف ہو۔ اگر کوئی ہوگا تو وہ میری شریعت کے تابع ہوگا"

(الفتوحات المکیہ جلد 2 صفحہ 3)

ہم قادیانیوں کی طرف سے شیخ ابن عربی رح پر لگائے گئے الزامات کا جواب تو بعد میں دیتے ہیں لیکن پہلے قادیانیوں کو بتاتے چلیں کہ آپ کو ابن عربی رح پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"شیخ ابن عربی رح پہلے وجودی تھے"

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 232)

اور وجودیوں کے بارے میں مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"وجودیوں اور دہریوں میں انیس بیس کا فرق ہے یہ وجودی (شیخ ابن عربی رح وغیرہ ) سخت قابل نفرت اور قابل کراہت ہیں"

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 397)

جب مرزاقادیانی کے نزدیک شیخ ابن عربی رح وجودی ، قابل نفرت اور دہریے ہیں تو قادیانی کس منہ سے شیخ ابن عربی رح کی عبارات پیش کرتے ہیں اور دھوکہ دیتے ہیں؟؟؟

اب قادیانیوں کی پیش کردہ عبارت کے جوابات بھی ملاحظہ فرمائیں ۔

جواب نمبر 1

شیخ ابن عربی رح نے لکھا ہے کہ

"جو وحی نبی اور رسول کے ساتھ خاص تھی کہ فرشتہ ان کے کان یا دل پر (وحی لے کر) نازل ہوتا تھا ۔ وہ وحی بند ہوچکی۔ اور اب کسی کو نبی یا رسول کا نام دینا ممنوع ہوچکا۔

(الفتوحات المکیہ جلد 2 صفحہ 253)

اس عبارت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ابن عربی رح کے نزدیک حضور ﷺ کے بعد وحی رسالت تاقیامت منقطع ہے۔ اب کسی کو نبی یا رسول نہیں کہ سکتے۔

جواب نمبر 2

شیخ ابن عربی رح نے لکھا ہے کہ

"وحی کا سلسلہ حضور ﷺ کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔۔۔۔ سیدنا عیسی علیہ السلام جب اس امت کی قیادت کریں گے تو ہماری شریعت کے مطابق عمل کریں گے ۔ آپ جب نازل ہوں گے تو آپ کے لئے مرتبہ کشف بھی ہوگا اور الہام بھی۔ جیسا کہ یہ مقام (اولیاء) امت کے لئے ہے"

(الفتوحات المکیہ جلد 3 صفحہ 238)

اس عبارت میں تو شیخ ابن عربی رح سیدنا عیسی علیہ السلام کے لئے بھی انبیاء والی وحی کا بند ہونا بیان کررہے ہیں۔ بلکہ ابن عربی رح کے مطابق سیدنا عیسی علیہ السلام کو اولیاء کی طرح کشف اور الہام ہوں گے ۔

جواب نمبر 3

شیخ ابن عربی رح کے نزدیک نبوت کا لفظ لغوی طور پر اولیاء کے مبشرات یا الہام وغیرہ پر بولا جاتا ہے۔ بلکہ ان مبشرات اور الہامات کے جن کو شیخ ابن عربی رح کے نزدیک نبوت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شیخ ابن عربی رح حیوانوں میں بھی لغوی طور پر نبوت کا لفظ بولتے تھے ۔

جیسا کہ شیخ ابن عربی رح نے لکھا ہے کہ

"اور یہ نبوت حیوانات میں بھی جاری ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ تیرے رب نے شھد کی مکھی کی طرف وحی کی"

(الفتوحات المکیہ جلد 2 صفحہ 254)

لیجئے شیخ ابن عربی رح تو حیوانات کی وحی کو بھی نبوت کا نام دے رہے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے۔ کیا اب قادیانیوں کی بات مان کر حیوانات کو بھی نبی مان لیں؟ ؟


"خلاصہ کلام"

خلاصہ کلام یہ ہے کہ شیخ ابن عربی رح کا عقیدہ یہی تھا کہ حضور ﷺ آخری نبی ہیں اور حضور ﷺ کے بعد کسی بھی انسان کو نبی یا رسول نہیں بنایا جائے گا ۔
اور جن مقامات پر ابن عربی رح نے نبوت کا لفظ استعمال کیا ہے وہاں حقیقتا نبوت مراد نہیں ہے بلکہ مجازی طور پر اولیاء کرام کے مبشرات یا الہامات کو نبوت کے لفظ سے بیان کیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ
"نبوت میں مبشرات کے سواء کچھ باقی نہیں "


"مولانا قاسم نانوتوی رح کی عبارات پر قادیانی اعتراضات کا علمی تحقیقی جائزہ"

مولانا قاسم نانوتوی رح کی عبارات پر جائزہ لینے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ختم نبوت کی کتنی اقسام کو مولانا قاسم نانوتوی رح نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
مولانا قاسم نانوتوی رح نے اپنی کتاب "تحذیر الناس" میں ختم نبوت کی دو اقسام بیان فرمائی ہیں۔

"1۔"ختم نبوت زمانی

ختم نبوت زمانی کا مطلب ہے کہ جس زمانے میں حضورﷺ تشریف لائے اور آپﷺ کو نبوت ملی۔ اس وقت سے لے کر قیامت تک اب کسی ایک انسان کو بھی نبی یا رسول نہیں بنایا جائے گا۔
اس لحاظ سے آپ ﷺخاتم النبیین ہیں۔



"2۔ "ختم نبوت مرتبی

ختم نبوت مرتبی کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ پر اللہ تعالٰی نے تمام مراتب کی انتہا فرمادی۔ اور جتنے مرتبے حضور ﷺ کو ملے ہیں اتنے مرتبے کسی کو بھی اللہ تعالٰی کی طرف سے نہ ملے ہیں اور نہ ملیں گے ۔ اور ختم نبوت مرتبی حضور ﷺ کو اس وقت سے حاصل ہے جب آدم علیہ السلام کا ابھی وجود بھی مکمل پیدا نہیں ہوا تھا۔

(ختم نبوت مرتبی کے بعد کم و بیش ایک لاکھ اور چوبیس ہزار نبی آئے لیکن اس سے حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت مرتبی پر کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام کو نبوت بھی ملنی تھیں اور انہوں نے تبلیغ بھی کرنی تھیں۔ لیکن تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا رتبہ حضور ﷺسے کم ہی ہونا تھا۔ اس لئے حضورﷺ کی ختم نبوت مرتبی پر فرق نہیں پڑا )

ایک اور تمہیدی بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن پاک کی 99 آیات اور 210 سے زائد احادیث مبارکہ حضورﷺ کی ختم نبوت زمانی پر دلیل ہیں۔ یعنی جب حضور ﷺ کا زمانہ نبوت شروع ہوگیا اس کے بعد اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ مسیلمہ کذاب یا مرزاقادیانی نبی یا رسول ہیں۔ یا ان کے علاوہ بھی کسی کو نبوت مل سکتی ہے تو یہ عقیدہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور کفر ہے۔

ختم نبوت کی ان دو اقسام کو ذہن میں رکھیں تو قادیانی مولانا قاسم نانوتوی رح کی جو عبارت پیش کرتے ہیں اس عبارت کے بارے میں قادیانی دجل وفریب خود ہی واضح ہوجاتا ہے۔

قادیانی کہتے ہیں کہ مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب نے لکھا ہے کہ

"عوام کے خیال میں تو رسول اللہ ﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ ﷺ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانے میں بالذات کچھ فضیلت نہیں ۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی ۔۔۔ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیہ میں کچھ فرق نہ آئے گا "
(تحذیر الناس صفحہ 3، 28)

آپ اس تحریر کو غور سے پڑھیں، بار بار پڑھیں لیکن آپ یہی سمجھیں گے کہ واقعی مولانا قاسم نانوتوی رح سے غلطی ہوئی ہے۔ قادیانیوں کے اس اعتراض کے بہت سے جوابات ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

جواب نمبر 1

اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک تحریر نہیں ہے بلکہ 3 مختلف صفحات سے تین باتیں لےکر ان کو جوڑ کر ایک تحریر بنایا گیا ہے۔

پہلی عبارت یہ ہے۔

"عوام کے خیال میں تو رسول اللہ ﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ ﷺ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانے میں بالذات کچھ فضیلت نہیں"

اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل فضیلت یہ ہے کہ حضور ﷺ کا مقام و مرتبہ اصل چیز ہے۔ یعنی اصل چیز ختم نبوت مرتبی ہے۔

دوسری عبارت یہ ہے

"میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی"

اس عبارت کے سیاق و سباق کو بالکل ہٹ کر پیش کیا گیاہے۔ کیونکہ اس عبارت سے کچھ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کیا بات ہورہی ہے۔ قادیانیوں نے صرف اپنے دجل کو بیان کرنے کے لئے اتنی سی عبارت کو ساتھ جوڑا ہے۔

تیسری عبارت یہ ہے

"اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیہ ﷺ میں کچھ فرق نہ آئے گا "

یہ اصل بات ہے جس کو لے کر قادیانی شور ڈالتے ہیں کہ دیکھو کہ مولانا قاسم نانوتوی رح خود فرما رہے ہیں کہ اگر بالفرض زمانہ نبوی کے بعد بھی کوئی نبی پیدا ہوجائے۔ یعنی مولانا قاسم نانوتوی رح کے نزدیک کسی نئے نبی کا حضور ﷺ کے بعد پیدا ہونا کوئی کفریہ عقیدہ نہیں ہے۔

آیئے قارئین قادیانیوں کے اس دجل کا پردہ بھی چاک کرتے ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مولانا قاسم نانوتوی رح نے ساری بات فرضیہ طور پر کی ہے ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں بھی اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ

"لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ "

"اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے ۔ لہذا عرش کا مالک اللہ ان باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں "

(سورۃ الانبیاء آیت نمبر 22)

اب اس آیت کو پڑھیں۔ اس آیت میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ اگر دو معبود ہوتے تو زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ دو معبود بن گئے؟؟ ہرگز نہیں بلکہ اللہ تعالٰی نے بطور مثال یہاں بیان فرمایا ہے ۔ کہ بالفرض اگر دو معبود ہوتے تو زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔

اسی طرح مولانا قاسم نانوتوی رح نے بھی یہاں بطور مثال بیان کیا ہے کہ بالفرض اگر کوئی نیا نبی پیدا ہوبھی جائے تو حضور ﷺ کو جو مقام و مرتبہ یعنی ختم نبوت مرتبی حاصل ہے۔ اس میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آئے گا بلکہ جس مقام و مرتبے پر آپ ﷺ فائز ہیں۔ وہی حاصل رہے گا۔

اب آپ فیصلہ کریں کہ کیا مولانا قاسم نانوتوی رح ختم نبوت زمانی کے منکر بن رہے ہیں یا ختم نبوت مرتبی کو بیان فرما رہے ہیں؟؟

اصل بات یہ ہے کہ اس جگہ مولانا قاسم نانوتوی رح نے حضور ﷺ کی ختم نبوت مرتبی کو بیان کیا ہے اور قادیانی دجل وفریب کرتے ہوئے اس مثال کو ختم نبوت زمانی پر فٹ کرتے ہیں۔ حالانکہ اوپر آپ پڑھ چکے ہیں کہ مولانا قاسم نانوتوی رح فرماتے ہیں کہ اگر کوئی ختم نبوت زمانی کا منکر ہے یعنی کوئی یہ کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد کسی نئے انسان کو نبی یا رسول بنایا گیا ہے تو وہ کافر ہے۔

یہ موضوع تھوڑا سا پچیدہ ہے جب تک کچھ علوم سے شدبد نہ ہو اس وقت تک یہ دقیق علمی بحث سمجھ نہیں آتی ۔ اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

جواب نمبر 2

مولانا قاسم نانوتوی رح نے لکھا ہے کہ

"“سو اگر اطلاق اور عموم ہے تب تو خاتمیت زمانی ظاہر ہے، ورنہ تسلیم لزوم خاتمیت زمانی بدلالت التزامی ضرور ثابت ہے، ادھر تصریحات نبوی مثل:

“انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی۔” او کما قال۔

جو بظاہر بطرز مذکورہ اسی لفظ خاتم النبیین سے ماخوذ ہے، اس باب میں کافی، کیونکہ یہ مضمون درجہ تواتر کو پہنچ گیا ہے، پھر اس پر اجماع بھی منعقد ہوگیا۔ گو الفاظ مذکور بہ سند تواتر منقول نہ ہوں، سو یہ عدم تواتر الفاظ، باوجود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا جیسا تواتر اعداد رکعات فرائض و وتر وغیرہ۔ باجودیکہ الفاظ حدیث مشعر تعداد رکعات متواتر نہیں، جیسا اس کا منکر کافر ہے، ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا۔”

(تحذیر الناس طبع جدید ص:18، طبع قدیم ص:10)

اس عبارت میں مولانا قاسم نانوتوی رح حضور ﷺ کے بعد کسی نئی نبوت کا دعوی کرنے والے اور اس کو ماننے والے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔ اس علاوہ اس عبارت میں صراحت موجود ہے کہ

1۔خاتمیت زمانی یعنی آنحضرت ﷺ کا آخری نبی ہونا، آیت خاتم النبیین سے ثابت ہے۔

2۔اس پر تصریحاتِ نبویﷺ متواتر موجود ہیں اور یہ تواتر رکعاتِ نماز کے تواتر کی مثل ہے۔

3۔اس پر امت کا اجماع ہے۔

4۔اس کا منکر اسی طرح کافر ہے، جس طرح ظہر کی چار رکعت فرض کا منکر۔

اتنی وضاحت کے بعد بھی مولانا قاسم نانوتوی رح پر ختم نبوت کا منکر ہونے کا الزام عقل و فہم سے بالاتر ہے۔

جواب نمبر 3

اسی تحذیر الناس میں ہے۔

“ہاں اگر بطور اطلاق یا عموم مجاز اس خاتمیت کو زمانی اور مرتبی سے عام لے لیجئے تو پھر دونوں طرح کا ختم مراد ہوگا۔ پر ایک مراد ہو تو شایان شان محمدیﷺ خاتمیت مرتبی ہے نہ زمانی، اور مجھ سے پوچھئے تو میرے خیال ناقص میں تو وہ بات ہے کہ سامع منصف انشاء اللہ انکار ہی نہ کرسکے۔ سو وہ یہ ہے کہ․․․․․”

(طبع قدیم ص:9، طبع جدید ص:15)

اس کے بعد یہ تحقیق فرمائی ہے کہ لفظ خاتم النبیین سے خاتمیت مرتبی بھی ثابت ہے اور خاتمیت زمانی بھی، اور “مناظرہ عجیبہ” میں جو اسی تحذیر الناس کا تتمہ ہے، ایک جگہ فرماتے ہیں:

“مولانا! حضرت خاتم المرسلینﷺ کی خاتمیت زمانی تو سب کے نزدیک مسلّم ہے اور یہ بات بھی سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ آپ اول المخلوقات ہیں ․․․․․․ “

(صفحہ 9 طبع جدید)

اس عبارت میں بھی عقیدہ ختم نبوت کا واضح اظہار موجود ہے۔

جواب نمبر 4

مولانا قاسم نانوتوی رح نے لکھا ہے کہ

“اپنا دین و ایمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں، جو اس میں تامل کرے اس کو کافر سمجھتا ہوں۔”

(ص:144)

لیجئے آخری حوالے نے تو قادیانی دجل کو پاش پاش کر دیا ۔


"خلاصہ کلام "

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مولانا قاسم نانوتوی رح عقیدہ ختم نبوت کے قائل بھی ہیں اور منکرین ختم نبوت کو کافر سمجھتے ہیں۔ البتہ "تحذیر الناس " میں مولانا قاسم نانوتوی رح نے یہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح حضور ﷺ کو ختم نبوت زمانی حاصل ہے یعنی حضور ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح حضور ﷺ کو ختم نبوت مرتبی بھی حاصل ہے۔ یعنی حضور ﷺ جیسا مقام و مرتبہ بھی کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا۔

"ختم نبوت کورس"سبق نمبر 9

 "احتساب قادیانیت"

"ختم نبوت کورس"

سبق نمبر 9

"قادیانیوں کے عقیدہ ظل و بروز کا علمی تحقیقی جائزہ"

مرزاقادیانی نے نئے عقیدہ ظل اور بروز کی بنیاد رکھی۔ دراصل مرزاقادیانی نے عقیدہ ظل اور بروز ہندوؤں کے عقیدہ حلول اور تناسخ سے چوری کیا۔ قادیانیوں کے عقیدہ ظل اور بروز کو سمجھنے سے پہلے ہندوؤں کا عقیدہ حلول اور تناسخ سمجھنا ضروری ہے۔


"ہندوؤں کا عقیدہ تناسخ و حلول"



ہندوؤں کا عقیدہ تناسخ اور حلول کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بندہ ایک دفعہ مرجاتا ہے تو اس کی روح دوسری دفعہ کسی میں حلول کر جاتی ہے اور اسی انسان کا دوسرا جنم ہوجاتا ہے۔ جو پہلے مرچکا
ہوتا ہے۔

لیکن ہندوؤں کے اس عقیدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جب کوئی انسان دوسری دفعہ جنم لے لیتا ہے تو وہ دوسری دفعہ جنم لے لینے کے بعد پہلے جنم کے والدین کو اپنا والدین نہیں کہ سکتا۔ اور پہلے جنم کی بیوی کو اپنی بیوی نہیں کہ سکتا۔ اور پہلے جنم کے بچوں کو اپنا بچہ نہیں کہ سکتا۔ اسی طرح جس زمین و جائیداد کا پہلے جنم میں وارث اور مالک ہوتا ہے دوسرے جنم میں اس زمین و جائیداد کا وارث اور مالک نہیں کہلاسکتا۔



"مرزاقادیانی کا عقیدہ ظل اور بروز "



مرزاقادیانی نے عقیدہ ظل اور بروز کے بارے میں لکھا ہے کہ

"اگر کوئی شخص اسی خاتم النبیین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آیئنہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہوگیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے گو ظلی طور پر ۔
پس باوجود اس شخص کے دعوی نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا ۔ پھر بھی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہی رہا۔ کیونکہ یہ محمد ثانی اسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اور اسی کا نام ہے"

(روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 209)

ایک اور جگہ مرزاقادیانی نے ظل اور بروز کی مزید وضاحت کی ہے۔

مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے۔ اور وہ خاتم الانبیاء ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں ۔ مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمدیت کی چادر پہنائی گئی۔
جیسا کہ تم آیئنہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے بلکہ ایک ہی ہو۔ اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں ۔ صرف ظل اور اصل کا فرق ہے"

(روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 16)

مرزاقادیانی کی ان تحریرات سے پتہ چلا کہ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کرے گا اسے نبوت مل جائے گی ۔

مرزاقادیانی کے اس عقیدے کے باطل ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

وجہ نمبر 1

مرزا قادیانی اور قادیانی جماعت یہ کہتی ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کی جائے تو نبوت ملتی ہے۔ تو ان کا یہ کہنا ہی کفر ہے۔

کیونکہ نبوت کسبی چیز نہیں ہے بلکہ وہبی چیز ہے۔ یعنی نبوت اپنی محنت کرنے اور ارادہ کرنے سے نہیں ملتی بلکہ اللہ تعالٰی جس کو عطا کریں اس کو ملتی ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے۔

"وَ اِذَا جَآءَتۡہُمۡ اٰیَۃٌ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ حَتّٰی نُؤۡتٰی مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ ؕ ۘ ؔ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ ؕ سَیُصِیۡبُ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا صَغَارٌ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ عَذَابٌ شَدِیۡدٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَمۡکُرُوۡنَ "

"اور جب ان ( اہل مکہ ) کے پاس ( قرآن کی ) کوئی آیت آتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ : ہم اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ اس جیسی چیز خود ہمیں نہ دے دی جائے جیسی اللہ کے پیغمبروں کو دی گئی تھی ۔( حالانکہ ) اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی پیغمبری کس کو سپرد کرے ۔ جن لوگوں نے ( اس قسم کی ) مجرمانہ باتیں کی ہیں ان کو اپنی مکاریوں کے بدلے میں اللہ کے پاس جاکر ذلت اور سخت عذاب کا سامنا ہوگا"

(سورۃ الانعام آیت نمبر 124)

وجہ نمبر 2

قادیانی کہتے ہیں کہ ظل سائے کو کہتے ہیں اور مرزاقادیانی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی کامل اتباع کی کہ مرزاقادیانی نعوذ باللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل بن گیا۔ اور ظلی نبی بن گیا۔ لیکن یہ قادیانیوں کا دھوکہ ہے۔ قادیانی دراصل مرزاقادیانی کو نعوذباللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسا بلکہ نعوذباللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر درجہ دیتے ہیں۔

سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی کامل اتباع کی ہے یا ویسے ہی ڈھنڈورا پیٹا ہے کہ میں عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔

1۔ مرزاقادیانی نے حج نہیں کیا ۔ حالانکہ مرزاقادیانی پر حج فرض بھی تھا۔

2۔ مرزاقادیانی نے ہجرت نہیں کی۔

3۔ مرزاقادیانی نے جہاد بالسیف نہیں کیا۔ بلکہ الٹا اس کو حرام کہا۔

4۔ مرزاقادیانی نے کبھی پیٹ پر پتھر نہیں باندھے۔

5۔ مرزاقادیانی نے کبھی بھی کسی چور کے ہاتھ نہیں کٹوائے۔ حالانکہ مرزاقادیانی کے دور میں کتنی چوریاں ہوئیں ۔ بلکہ الٹا مرزاقادیانی نے لوگوں سے فراڈ کئے ۔

6۔ مرزاقادیانی نے کسی زانی کو سنگسار نہیں کروایا۔ حالانکہ ہندوستان کے قحبہ خانوں میں زنا ہوتا رہا۔ بلکہ الٹا مرزاقادیانی کے پیروکاروں نے مرزاقادیانی اور اس کے خاندان پر زنا کے الزام لگائے۔

اگر مرزاقادیانی اور قادیانی جماعت نبوت ملنے کے لئے اطاعت کو ہی معیار بناتے ہیں تو مرزاقادیانی تو اس معیار پر بھی پورا نہیں اترتا ۔

وجہ نمبر 3

مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے۔ اور وہ خاتم الانبیاء ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں ۔ مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمدیت کی چادر پہنائی گئی۔
جیسا کہ تم آیئنہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے بلکہ ایک ہی ہو۔ اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں ۔ صرف ظل اور اصل کا فرق ہے"

(روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 16)

معزز قارئین مرزاقادیانی کا کفر یہاں ننگا ناچ رہا ہے مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ میں ظلی طور پر محمد ہوں اس کا مطلب ہے کہ نعوذباللہ اگر آیئنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جائے تو وہ مرزاقادیانی نظر آئیں گے ۔ اور جو مرزاقادیانی آیئنے میں نظر آرہا ہے وہ مرزاقادیانی نہیں ہے بلکہ نعوذ باللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
اگر دونوں ایک ہی ہیں تو پھر ظل اور بروز کی ڈھکوسلہ بازی کیوں کرتے ہو؟؟؟

اور یہی کہنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے اور کفر ہے۔

وجہ نمبر 4

مرزاقادیانی کے ظل اور بروز کے فلسفے کو مرزاقادیانی کی ہی تحریرات سے باطل ثابت کرتے ہیں۔


1۔مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"نقطہ محمدیہ ایسا ہی ظل الوہیت کی وجہ سے مرتبہ الہیہ سے اس کو ایسی ہی مشابہت ہے جیسے آیئنے کے عکس کو اپنی اصل سے ہوتی ہے۔ اور امہات صفات الہیہ یعنی حیات،علم،ارادہ،قدرت، سمع ،بصر کلام مع اپنے جمیع فروع کےاتم و اکمل طور پر اس(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) میں انعکاس پذیر ہیں"

(روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 224)

2۔ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وجود ظلی طور پر گویا آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود تھا"

(روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 265)

3۔ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"خلیفہ دراصل رسول کا ظل ہوتا ہے"

(روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 353)

4۔ مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ

"صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عکسی تصویریں تھے"

(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 21)

مرزاقادیانی کے اگر ظل اور بروز کے فلسفے کو تسلیم کرلیں تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا تسلیم کرنا پڑے گا ۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور تمام خلفائے راشدین کو رسول تسلیم کرنا پڑے گا ۔ اس کے علاوہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کو بھی رسول تسلیم کرنا پڑے گا ۔

کیا کوئی قادیانی ایسا ایمان رکھتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور تمام خلفائے راشدین رسول ہیں اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین رسول ہیں؟؟

اگر مرزاقادیانی کے فلسفے کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے ظل ہوکر بھی خدا نہیں ہوسکتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر خلفاء رسول اللہ کے ظل ہوکر بھی رسول نہیں ہوسکتے اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس ہوکر بھی رسول نہیں ہوسکتے تو مرزاقادیانی کیسے نبی اور رسول ہوسکتا ہے؟؟

ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ظلی اور بروزی نبوت کی اصطلاح صرف لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ہے۔ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔

وجہ نمبر 5

قادیانی قرآن پاک کی اس آیت سے استدلال کرکے کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کرنے سے ظلی نبوت ملتی ہے۔

"وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا "

اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے ، یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین ۔ اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں ۔

(سورۃ النساء آیت نمبر 69)

اس آیت میں دراصل اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے کو یہ خوشخبری ہے کہ وہ جنت میں نبیوں ،صدیقوں، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر قادیانی فلسفے کو تسلیم کرلیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کرنے سے ظلی نبوت مل جاتی ہے تو کیا دوسرے انعام جن کا اس آیت میں ذکر ہے یعنی صدیق،شھید اور صالح ہونا، کیا یہ درجے بھی ظلی طور پر ملتے ہیں یا حقیقی طور پر ملتے ہیں؟؟

کیونکہ اگر قادیانی فلسفے کو تسلیم کیا جائے تو یہ درجے بھی ظلی طور پر ملنے چاہیئں۔
اور اگر یہ درجے حقیقی طور پر ملتے ہیں ظلی طور پر نہیں ملتے تو پھر نبوت کو بھی حقیقی طور پر ملنا چاہیے ۔
حالانکہ شریعت کے ساتھ نبوت کا ملنا اور مستقل نبوت کا ملنا یہ تو قادیانی بھی تسلیم نہیں کرتے۔ تو پتہ چلا کہ قادیانیوں کا ظل اور بروز کا فلسفہ محض ایک ڈھکوسلاہے۔ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔

وجہ نمبر 6

مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"صدہا لوگ ایسے گزرے ہیں جن میں حقیقت محمدیہ متحقق تھی اور عنداللہ ظلی طور پر ان کا نام محمد یا احمد تھا"

(روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 346)

جبکہ دوسری جگہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا ہوں۔اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں"

(روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 406)

مرزاقادیانی کی ان تحریرات سے پتہ چلا کہ امت محمدیہ میں سینکڑوں لوگ ایسے گزرے ہیں جو ظلی طور پر محمد یا احمد تھے لیکن نبی نہیں تھے۔ اور نہ انہوں نے نبوت کا دعوی کیا اور نہ اپنی علیحدہ جماعت بنائی اور نہ ہی اپنے منکرین کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ اتنے بڑے بڑے متبعین خدا و رسول تو اس نعمت سے محروم رہے اور مرزاقادیانی جیسا کوڑھ مغز آدمی ظلی نبی بن گیا بلکہ ظلی نبی کے ساتھ حقیقی نبی بن گیا ۔

وجہ نمبر 7

مرزا قادیانی نے ظل اور بروز کا عقیدہ ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ و حلول سے چوری کرکے لیا۔

ہندوؤں کا عقیدہ تناسخ اور حلول کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بندہ ایک دفعہ مرجاتا ہے تو اس کی روح دوسری دفعہ کسی میں حلول کر جاتی ہے اور اسی انسان کا دوسرا جنم ہوجاتا ہے۔ جو پہلے مرچکا
ہوتا ہے۔

لیکن ہندوؤں کے اس عقیدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جب کوئی انسان دوسری دفعہ جنم لے لیتا ہے تو وہ دوسری دفعہ جنم لے لینے کے بعد پہلے جنم کے والدین کو اپنا والدین نہیں کہ سکتا۔ اور پہلے جنم کی بیوی کو اپنی بیوی نہیں کہ سکتا۔ اور پہلے جنم کے بچوں کو اپنا بچہ نہیں کہ سکتا۔ اسی طرح جس زمین و جائیداد کا پہلے جنم میں وارث اور مالک ہوتا ہے دوسرے جنم میں اس زمین و جائیداد کا وارث اور مالک نہیں کہلاسکتا۔

لیکن مرزاقادیانی نے ہندوؤں کے اس عقیدہ تناسخ اور حلول کا بھی بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ۔ مرزاقادیانی نے جس شخص کو دوسرے کا ظل بنایا اس کو پہلے شخص کا وارث بھی بنادیا۔

مرزاقادیانی اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل کہتا ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو ام المومنین کہا جاتا ہے۔ جبکہ مرزاقادیانی کے پیروکار بھی مرزاقادیانی کی بیوی کو ام المومنین کہتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ کی طرح مرزاقادیانی اپنے مریدوں کو صحابی کہتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح مرزاقادیانی بھی اپنے آپ کو نبی اور رسول کہتا ہے اور نہ ماننے والوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے ظل اور بروز کا عقیدہ چوری تو ہندوؤں کے عقیدہ حلول اور تناسخ سے کیا ۔ لیکن ہندوؤں کے عقیدے کا بھی بیڑہ غرق کر دیا ۔

وجہ نمبر 8

مرزاقادیانی اور اور قادیانی جماعت کی تحریرات ملاحظہ فرمائیں اور خود فیصلہ کریں کہ کیا ظل اور بروز کا فلسفہ انسانی عقل اور فہم میں آتا ہے؟؟

1۔ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"محمد رسول اللہ والذین معہ"
(سورۃ الفتح آیت نمبر 29)
اس وحی الہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔

(روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 207)

2۔ مرزاقادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے کہ

"پس مسیح موعود (مرزاقادیانی ) خود محمد رسول اللہ ہے۔ جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے"

(کلمتہ الفصل صفحہ 158)

3۔ قادیانی اخبار الفضل میں لکھا ہے کہ

"مسیح موعود(مرزاقادیانی) کا آنا بعینیہ محمد رسول اللہ کا دوبارہ آنا ہے۔ یہ بات قرآن سے صراحتہ ثابت ہے کہ محمد رسول اللہ دوبارہ مسیح موعود(مرزاقادیانی) کی بروزی صورت اختیار کر کے آئیں گے"

(الفضل جلد 2 نمبر 24)

4۔ قادیانی اخبار الفضل میں لکھا ہے کہ

"پھر مثیل اور بروز میں بھی فرق ہے۔ بروز میں وجود بروزی اپنے اصل کی پوری تصویر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ نام بھی ایک ہوجاتا ہے۔۔۔ بروز اور اوتار ہم معنی ہیں"

(الفضل 20 اکتوبر 1931ء)

5۔ قادیانی اخبار الفضل میں لکھا ہے کہ

"میں احمدیت میں بطور بچہ تھا جو میرے کانوں میں یہ آواز پڑی ۔
مسیح موعود محمد است و عین محمد است"

(الفضل 17 اگست 1915ء)

6۔ مرزاقادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے کہ

"اس میں کیا شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اللہ تعالٰی نے پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اتارا"

(کلمتہ الفصل صفحہ 105)

مرزا قادیانی اور دوسرے قادیانیوں کی ان تحریرات سے پتہ چلتا ہے کہ نعوذ باللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مرزاقادیانی ایک ہی ہیں۔

اس کی 3 صورتیں ہیں۔

1۔ پہلی صورت یہ ہے کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک اور روح مبارک نعوذ باللہ مرزاقادیانی کی شکل میں دوبارہ دنیا میں تشریف لائے ؟
یہ صورت تو غلط ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک تو مدینہ شریف میں روضہ مبارک میں مدفون ہے۔

2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کیا نعوذباللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک مرزاقادیانی کے جسم میں حلول کر گئی ؟
یہ صورت بھی غلط ہے کیونکہ یہ عقیدہ تو ہندوؤں کا ہے کہ ایک فوت شدہ انسان دوسرے جنم میں آتا ہے۔
یہ ہندوؤں کا عقیدہ تو ہوسکتا ہے لیکن اسلام میں اس عقیدے کی کوئی گنجائش نہیں ۔
کیونکہ یہ عقیدہ قرآن و حدیث کے صراحتہ خلاف ہے۔

3۔ اس کی تیسری صورت یہ ہے کہ نعوذ باللہ مرزاقادیانی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات ہوں۔
یہ صورت بھی غلط ہے کیونکہ

1۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے اور مرزاقادیانی کئی کتابوں کا مصنف تھا۔

2۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عربی تھے اور مرزاقادیانی عجمی تھا۔

3۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اور مرزاقادیانی مغل قوم سے تعلق رکھتا تھا ۔

4۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیاوی لحاظ سے بےبرگ و بےنوا تھے جبکہ مرزاقادیانی کو رئیس قادیان کہلانے کا شوق تھا۔

5۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی کے 10 سالوں میں سارا عرب زیرنگیں کرلیا تھا۔ جبکہ مرزاقادیانی غلامی کی زندگی کو پسند کرتا تھا ۔ اور جہاد اور فتوحات کا قائل نہیں تھا۔

6۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اسلام کو آزادی کا مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اور مرزاقادیانی کے ہاں اسلام غلامی کا مترادف ہے۔

7۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی گواہی غیروں نے بھی دی تھی ۔ جبکہ مرزاقادیانی کو آج تک قادیانی سچا ثابت نہیں کر سکے۔

8۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ایسا پاکیزہ اور صاف ستھرا تھا کہ غیر بھی اس پر انگلی نہیں اٹھا سکے۔ اور مرزاقادیانی کا کردار ایسا ہے کہ خود مرزاقادیانی کے ماننے والے مرزا قادیانی پر زنا کے الزام لگاتے رہے ۔

9۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مالی معاملات اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بےمثال زندگی دنیا بھر کے لئے نمونہ ہے۔ جبکہ مرزاقادیانی کی خیانت اور لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنا آج بھی قادیانیوں کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مرزاقادیانی میں نہ وحدت جسم ہے اور نہ وحدت روح ہے۔ اور نہ ہی وحدت کمالات ہے اور نہ ہی وحدت اوصاف ہے۔
پھر یہ کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ نعوذباللہ مرزاقادیانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے ۔ اور نعوذ باللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی دوبارہ مرزاقادیانی کی شکل میں آ گئے ہیں۔

وجہ نمبر 9

مرزاقادیانی نے جو ظل اور بروز کا عقیدہ گھڑا ہے یہ عقیدہ نہ قرآن کی کسی آیت سے ثابت ہے اور نہ کسی حدیث سے ثابت ہے۔ بلکہ یہ عقیدہ ہندوؤں کے عقیدہ حلول اور تناسخ سے چوری شدہ ہے۔ اس لئے ایسا عقیدہ جو اسلام کے بنیادی عقیدے کے ہی خلاف ہو وہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔



"خلاصہ کلام "



ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی کا عقیدہ ظل و بروز قرآن و احادیث کے خلاف ہے۔ ہندوؤں کے عقیدہ حلول اور تناسخ سے چوری کیا گیا ہے۔

اور خود مرزاقادیانی کی تحریرات سے بھی باطل ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ ایسا جھوٹا عقیدہ ہے جو عقل و فہم سے بھی بالاتر ہے۔