4 Dec 2017

"ختم نبوت کورس"سبق نمبر 6

"احتساب قادیانیت"

"ختم نبوت کورس"

سبق نمبر 6

"قرآن مجید کی 2 آیات پر اجرائے نبوت کے موضوع پر قادیانی شبہات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"


"آیت نمبر 1"

قادیانی قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبوت میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم نہیں ہوئ ہے بلکہ جاری ہے اور قیامت تک نئے نبی آسکتے ہیں۔ 

آیئے پہلے آیت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں اور پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا علمی رد کرتے ہیں۔ 

آیت

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ ۙ فَمَنِ اتَّقٰی وَ اَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ۔

ترجمہ = 
اے آدم علیہ السلام کے بیٹے اور بیٹیو! اگر تمہارے پاس تم میں سے ہی کچھ پیغمبر آیئں جو تمہیں میری آیات پڑھ کر سنائیں ،تو جو لوگ تقوی اختیار کر لیں گے اور اپنی اصلاح کر لیں گے ،ان پر نہ کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ 

(سورۃ الاعراف آیت نمبر 35) 


قادیانیوں کا باطل استدلال
 
قادیانی اس آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیت میں تمام بنی آدم کو مضارع کے صیغے کے ساتھ خطاب کیا گیاہے ۔ 
اس لئے اس آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ قیامت تک بنی آدم میں سے رسول آتے رہیں گے ۔ 

قادیانیوں کے باطل استدلال کا جواب 

قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ 

جواب نمبر 1 

قرآن مجید کے اسلوب سے یہ بات ثابت ہے کہ پورے قرآن میں جہاں بھی امت محمدیہ علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے خطاب کیا ہے تو وہاں 2 طریقوں سے خطاب کیا ہے۔ 

1۔ امت محمدیہ علیہ السلام کو اجابت کے لئے "یاایھاالذین آمنو" کے الفاظ سے خطاب کیا گیا ہے۔ 

2۔ امت محمدیہ علیہ السلام کو دعوت کے لئے "یاایھاالناس" کے الفاظ سے خطاب کیا گیا ہے۔ 

پورے قرآن میں امت محمدیہ علیہ السلام کو "یبنی آدم " کے الفاظ سے خطاب نہیں کیا گیا ۔ 

پس ثابت ہوا کہ اس آیت میں امت محمدیہ علیہ السلام کو خطاب نہیں کیا گیا ۔ بلکہ امت محمدیہ سے پہلے تمام اولاد آدم کو جو خطاب کیا گیا تھا اس آیت میں اس کا ذکر ہے ۔ 

ایک ضروری وضاحت 

یبنی آدم کے الفاظ سے جہاں بھی اولاد آدم علیہ السلام کو خطاب کیا گیا ہے وہاں اگر کوئی احکام نازل کئے جانے کا ذکر ہوتو اگر وہ احکام امت محمدیہ علیہ السلام میں منسوخ نہ کئے گئے ہوں یا کوئی ایسا حکم ہو جو شریعت محمدیہ علیہ السلام کو اس حکم کے پورا کرنے سے مانع نہ ہوتو امت محمدیہ علیہ السلام بھی اس حکم میں شامل ہوتی ہے۔ 

جبکہ اس آیت میں جس بات کو ذکر کیا گیا ہے وہ سابقہ امتوں کے لئے اس لئے ہے کیونکہ قرآن و سنت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی قرار دیا گیا ہے۔ اور آخری نبی کے آنے کے بعد نبوت جاری نہیں رہتی۔ 

قادیانی " یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ" کے لفظ پر اعتراض کرتے ہوئے ایک اور آیت بھی پیش کرتے ہیں "یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ "کہ اس آیت میں "یبنی آدم"کے لفظ سے خطاب کیا گیا ہے اور اس میں مسجد کا ذکر ہے اور مسجدیں امت محمدیہ علیہ السلام کے ساتھ خاص ہیں۔ 

حالانکہ قادیانی علمی یتیموں کو یہ پتا نہیں کہ مسجد کا ذکر پہلی امتوں کے لئے بھی قرآن میں کیا گیا ہے۔ 
جیسا کہ اس آیت میں ذکر ہے ۔ 

"قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمۡرِہِمۡ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسۡجِدًا"

 انہوں نے کہا کہ : ہم تو ان کے اوپر ایک مسجد ضرور بنائیں گے ۔ 

(سورۃ الکھف آیت نمبر 21)

جواب نمبر 2 

اولاد بنی آدم میں ہندو، سکھ،عیسائی اور یہودی تمام شامل ہیں۔ کیا ہندوں، سکھوں ،عیسائیوں اور یہودیوں میں سے بھی رسول آسکتا ہے؟؟؟ 
اگر ان میں سے رسول نہیں آسکتا تو ان کو اس آیت کے عموم سے کس دلیل کے ساتھ قادیانی خارج کرتے ہیں؟؟؟ 
اس کے علاوہ اولاد بنی آدم میں عورتیں اور ہیجڑے بھی شامل ہیں ۔ 
کیا عورتوں اور ہیجڑوں میں سے بھی رسول آسکتا ہے؟؟؟؟؟

اگر قادیانی اس کے جواب میں کہیں کہ عورتیں پہلے نبی نہیں بنی تو اب بھی نہیں بن سکتیں۔ 

اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح کوئی عورت نبی نہیں بنی اسی طرح پہلے کسی نبی کی اطاعت کرنے سے کوئی مرد بھی نبی نہیں بنا۔

 اگر نبوت جاری ہے اور اطاعت سے کوئی انسان نبی بن سکتا ہے تو اطاعت سے عورت بھی نبی بن سکتی ہے۔ 

پس ثابت ہوا کہ اس آیت کی رو سے جس طرح عورت نبی نہیں بن سکتی اسی طرح کوئی مرد بھی نبی نہیں بن سکتا۔ 

جواب نمبر 3 

اگر اس آیت "یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ َ" سے رسولوں کے آنے کا وعدہ ہے تو اس آیت "اما یاتینکم منی ھدی " سے صاحب شریعت رسولوں کے آنے کا وعدہ بھی ہے۔کیونکہ اس آیت میں وہی یاتینکم ہے جو "یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ " والی آیت میں ہے۔ 

لیکن قادیانی صاحب شریعت رسولوں کے آنے کے منکر ہیں پس جس طرح آیت "یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ " سے آپ قادیانی صاحب شریعت رسولوں کے آنے کے منکر ہیں اسی طرح اس آیت سے غیر تشریعی رسول بھی نہیں آسکتے۔ 

جواب نمبر 4 

اس آیت "یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ" میں لفظ "اما"ہے ۔ اور "اما " حرف شرط ہے۔ جس کا تحقق ضروری نہیں جس طرح مضارع کے لئے استمرار ضروری نہیں ۔ 

جیسا کہ اس آیت سے وضاحت ہوتی ہے۔ 
"َاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الۡبَشَرِ اَحَدًا" سورہ مریم آیت 26 
ترجمہ = اگر لوگوں میں سے کسی کو آتا دیکھو 

اس آیت کا اگر قادیانی اصول کے مطابق ترجمہ کریں تو یوں بنے گا کہ مریم علیہ السلام قیامت تک آدمی کو دیکھتی رہیں گی۔ 

حالانکہ یہ ترجمہ قادیانی نہیں مانتے۔ 

پس جس طرح اس آیت کی رو سے مریم علیہ السلام قیامت تک کسی آدمی کو نہیں دیکھ سکتیں۔ 

اسی طرح اس آیت "یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ " سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آسکتا ۔ 


 جواب نمبر 5 

اس آیت کا شان نزول قادیانیوں کے تسلیم کردہ مجدد امام سیوطی رحمہ اللہ نے یوں بیان کیا ہے۔ 

"ابی یسار سلمی سے روایت ہے کہ اللہ رب العزت نے سیدنا آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو (اپنی قدرت و رحمت کی )مٹھی میں لیا اور فرمایا "یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ۔۔۔" پھر رسولوں پر نظر رحمت ڈالی تو فرمایا یایھاالرسل ۔۔۔۔۔ 
پس ثابت ہوا کہ قادیانیوں کے تسلیم کر دہ مجدد کے نزدیک یہ آیت عالم ارواح کے واقعہ کی حکایت ہے۔ 

اس لئے اس آیت سے نبوت کا جاری رہنا کسی صورت بھی ثابت نہیں ہوتا۔ 

جواب نمبر 6 

جس رکوع میں یہ آیت ذکر ہے اس میں اس آیت سے پہلے 3 دفعہ آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو یبنی آدم کے الفاظ سے اللہ تعالٰی نے خطاب کیا ہے۔ 
اس لئے اگر سیاق و سباق کو بھی دیکھا جائے تو بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں اولین اولاد آدم علیہ السلام کے خطاب کو اللہ تعالٰی نے بیان فرمایا ہے۔ 

جواب نمبر 7
بالفرض محال اگر تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اس آیت کی رو سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انسانوں میں سے رسول آسکتے ہیں تو مرزاقادیانی پھر بھی رسول ثابت نہیں ہوتا ۔ 
کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ میں تو انسان ہی نہیں ۔

کرم خاکی ہوں پیارے نہ آدم زاد ہوں 
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار 

(روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 127) 

خلاصہ کلام

تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے بلکہ قرآن مجید کی کسی آیت سے بھی نبوت کا جاری ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ بلکہ اس آیت میں اولین اولاد آدم علیہ السلام سے اللہ تعالٰی کے خطاب کو بیان کیا گیا ہے۔ 

"دوسری آیت"

قادیانی قرآن مجید کی درج ذیل آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبوت جاری ہے اور قیامت تک نئے نبی اور رسول آسکتے ہیں۔ 

آیئے پہلے آیت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں ۔ پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا علمی رد کرتے ہیں۔ 

آیت 

"وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا"

آیت کا ترجمہ = 

اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے ۔جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے ، یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین ۔ اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں ۔ 

(سورۃ النساء آیت نمبر 69) 

قادیانیوں کا باطل استدلال

قادیانی اس آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے سے کوئی بھی انسان نبی ،صدیق، شہید اور صالح بن سکتا ہے۔ یعنی یہ 4 درجے ایسے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے سے مل سکتے ہیں۔ 

قادیانیوں کے اس آیت سے کئے گئے باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ 

جواب نمبر 1 
کوئی بھی ذی شعور اور صاحب عقل آدمی اس آیت کا صرف ترجمہ پڑھ لے تو اسے خود پتہ چل جائے گا کہ اس آیت سے نبوت کے جاری ہونے کا قطعا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔

 بلکہ یہ آیت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں کو یہ خوشخبری سنا رہی ہے کہ آپ قیامت کے بعد نبیوں، صدیقوں ،شہدا اور صالحین کے ساتھ ہوں گے۔ 

جیسا کہ اس آیت کے آخری الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ یعنی نبی ، صدیقین، شھدا اور صالحین بہترین ساتھی ہیں ۔ 

پس ثابت ہوا کہ یہ آیت قیامت کی معیت کے بارے میں ہے ۔ 

جواب نمبر 2 
اس آیت کا شان نزول قادیانیوں کے تسلیم کردہ 10 صدی کے مجدد امام جلال الدین سیوطی رح یوں لکھتے ہیں ۔ پڑھئے اور سر دھنئے ۔ 

"بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ جنت کے بلند و بالا مقامات پر ہوں گے اور ہم جنت کے نچلے درجات میں ہوں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کیسے ہوگی؟؟؟ 

تو یہ آیت نازل ہوئی ۔ 

مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ۔۔۔۔۔۔۔ 

(تفسیر جلالین صفحہ 80)

یہاں رفاقت سے مراد جنت کی رفاقت ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اگرچہ جنت کے بالاخانوں میں ہوں گے لیکن پھر بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین اور دوسرے نیک لوگ انبیاء کرام علیہم السلام کی زیارت سے فیض یاب ہوں گے۔ 

اس کے علاوہ مرزا قادیانی سے پہلے تقریبا تمام تفاسیر میں اس آیت کا یہی شان نزول لکھا ہے۔ 

لیجئے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تفسیر نے بھی بتا دیا کہ اس آیت میں معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔ 

جواب نمبر 3
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ 
"میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ہر نبی کو مرض وفات میں اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں رہنا چاہتا ہے یا عالم آخرت میں ۔ 
جس مرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس مرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ۔ 

"مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ"

یعنی ان نبیوں کے ساتھ جن پر تو نے انعام فرمایا 

 اماں جان رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس سے میں سمجھ گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا اور آخرت میں سے ایک کا اختیار دیا جارہا ہے۔ 

(مشکوۃ شریف جلد 2 صفحہ 547) 

اس روایت سے بھی ثابت ہوگیا کہ معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔ 

جواب نمبر 4 
دو روایات اور ملاحظہ فرمائیں جن میں بھی معیت کا ذکر ہے لیکن اس معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔ 

حدیث نمبر 1 

"قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من قرء الف آیتہ فی سبیل اللہ کتب یوم القیامۃ مع النبیین والصدیقین والشھداء والصلحین " 

میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 
جو شخص ایک ہزار آیات روزانہ اللہ کی رضا کے لئےتلاوت کرے وہ قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں، شہدا اور صالحین کے ساتھ بہترین رفاقت میں ہوگا۔ 

(مسند احمد جلد 1 صفحہ 363) 

حدیث نمبر 2 

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشھداء ۔ 

میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچا امانت دار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شھداء کے ساتھ ہوگا۔

(مسند احمد جلد 2 صفحہ 209) 

اب قادیانی یہ بتایئں کہ کیا کوئی سچا تاجر یا 1000 آیات روزانہ پڑھنے والا نبی بن سکتا ہے؟؟؟؟ 
یقینا قادیانی یہی کہیں گے کہ سچا تاجر اور 1000 آیات روزانہ پڑھنے والا قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں، شھداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ 

جس طرح سچا تاجر اور 1000 آیات روزانہ پڑھنے والا نبی نہیں بن سکتا بلکہ قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا ۔ اسی طرح اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والا بھی نبی یا رسول نہیں بن سکتا بلکہ قیامت کے دن وہ نبیوں، صدیقوں، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ 

جواب نمبر 5 

مندرجہ بالا آیت میں قیامت کے دن معیت کا ذکر ہے ۔ جن آیات میں دنیا میں درجات ملنے کا ذکر ہے ان میں سے کسی ایک آیت میں بھی نبوت ملنے کا ذکر نہیں ہے ۔ 

مثلا سورۃ العنکبوت میں اللہ فرماتے ہیں ۔ 

"وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدۡخِلَنَّہُمۡ فِی الصّٰلِحِیۡنَ "

(وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے وہ نیک لوگوں میں داخل ہوں گے) 

(سورۃ العنکبوت آیت نمبر 9) 

اس کے علاوہ ایک اور جگہ پر اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ۔ 

" وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ" 

(جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں وہ اللہ کے نزدیک صدیق اور شھید ہیں) 

(سورۃ الحدید آیت نمبر 19)

ان آیات میں جو لوگ مخاطب ہیں اور ان کو جو درجات ملنے کا ذکر ہے ان میں نبوت ملنے کا دور دور تک بھی ذکر نہیں ہے۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین سے زیادہ کامل ایمان والا امت میں کون ہوسکتا ہے؟؟؟ 
اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین جیسے کامل ایمان والے لوگوں کو نبوت نہیں مل سکتی تو پھر امت میں کسی کو کیسے نبوت مل سکتی ہے جبکہ اللہ نے نبوت کا دروازہ بھی بند کردیا ہوا ہے۔ 

خلاصہ

پس ثابت ہوا کہ قادیانیوں کا مندرجہ بالا آیت پر استدلال باطل ہے کیونکہ اس آیت میں قیامت کے بعد نیک لوگوں کو جو معیت ملے گی اس کا ذکر ہے۔ کہ نیک لوگ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوں گے ۔ 

No comments:

Post a Comment