4 Dec 2017

"ختم نبوت کورس"سبق نمبر 7

"احتساب قادیانیت"

"ختم نبوت کورس"

سبق نمبر 7

مسئلہ اجرائے نبوت پر چند آیات پر قادیانیوں کے باطل شبہات اور ان کے علمی" "تحقیقی جوابات

"آیت نمبر 1"

قادیانی قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امت محمدیہ علیہ السلام میں قرب قیامت ایک اور نیا رسول قادیان میں پیدا ہوگا۔ اور وہ لوگوں کی اصلاح کرے گا ۔

آیئے پہلے آیات اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا علمی رد کرتے ہیں۔

آیات 

ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ۔
وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ۔

آیت کا ترجمہ 
وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنایئں اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں۔ اور ان میں سے کچھ اور بھی ہیں جو ابھی آکر ان سے نہیں ملے ۔ وہ بڑے اقتدار والا بڑی حکمت والا ہے۔

(سورۃ الجمعہ آیت 2،3)


قادیانیوں کا باطل استدلال

قادیانی قرآن مجید کی اس آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امت محمدیہ علیہ السلام میں قرب قیامت ایک اور نیا رسول قادیان میں پیدا ہوگا۔ اور وہ لوگوں کی اصلاح کرے گا ۔

قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

جواب نمبر 1


اگر اس آیت کی تفسیر "تفسیر القرآن بالقرآن " دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ
یہ آیت کریمہ دراصل اس دعا کا جواب ہے جو حضرت ابراهیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے مانگی تھی ۔
وہ دعا یہ ہے ۔

"رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ "

(ہمارے پروردگار! ان میں سے ایک ایسا رسول بھی بھیجنا جو انہی میں سے ہو ۔ جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاکیزہ بنائے)

(سورۃ البقرۃ آیت نمبر 129)

اللہ تعالٰی نے ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کو قبول کرتے ہوئے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جیسا کہ زیر بحث آیت میں ذکر ہے ۔

"ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ"

(وہی ہے جس امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنایئں اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں)

(سورۃ الجمعہ آیت نمبر 2)

مبعوث تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے لوگوں میں ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہادی و برحق اور نبی و رسول قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے ہیں۔ جیسا کہ قرآن پاک کی اور آیات سے بھی ظاہر ہے۔

"یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا"
(اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا گیا رسول ہوں)

(سورۃ الاعراف آیت نمبر 158)

پس چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے رسول ہیں لہذا آپ کے زمانہ نبوت میں کسی نئے رسول یا نبی کی کوئی گنجائش نہیں ۔

جواب نمبر 2


حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَوْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْجُمُعَةِ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يُرَاجِعْهُ حَتَّى سَأَلَ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ ""لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ"".

"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ جمعہ نازل ہوئ ۔ "وآخرین منھم لما یلحقو بھم " تو میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔ حتی کہ تیسری بار سوال عرض کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں بیٹھے ہوئے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو یہ لوگ (اہل فارس) اس کو پالیں گے "۔

(بخاری شریف حدیث نمبر 4897، مسلم شریف حدیث نمبر 6498، ترمذی شریف حدیث نمبر 3310)

اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل فارس کی ایک جماعت ہوگی جو اسلام کی تقویت کا باعث بنے گی ۔
چنانچہ اس حدیث کے مصداق عجم و فارس میں بڑے بڑے محدثین، فقھا، مفسرین،مجدین، صوفیاء اور اولیاء کرام پیدا ہوئے ہیں۔ جو اسلام کی تقویت کا باعث بنے ہیں۔
اس حدیث نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حاضر اور غائب کے نبی ہیں اور قیامت تک جتنے بھی لوگ آیئں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے نبی ہوں گے ۔ مزید کسی نئے نبی کی گنجائش نہیں ۔

جواب نمبر 3


امام رازی رح جو مرزا قادیانی سے پہلے کے مفسر ہیں وہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
ابن عباس رضی اللہ عنہ اور مفسرین کی جماعت کہتی ہے کہ آخرین سے مراد عجمی ہیں( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب و عجم کے لئے معلم و نبی ہیں )مقاتل رح کہتے ہیں کہ اس سے تابعین مراد ہیں،
سب اقوال کا حاصل یہ ہے کہ امیین سے عرب مراد ہیں اور آخرین سے مراد وہ تمام اقوام ہیں جو قیامت تک اسلام میں داخل ہوں گی۔

(تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 4)

لیجئے مفسرین کے مطابق اس آیت سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو قیامت تک اسلام میں داخل ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام لوگوں کے نبی ہیں۔

جواب نمبر 4

اس آیت کے بارے میں جو کچھ مرزاقادیانی نے لکھا ہے مرزاقادیانی اس کے مطابق بھی نبی ثابت نہیں ہوتا بلکہ "کذاب " ثابت ہوتا ہے۔
آیئے مرزاقادیانی کی اس تحریر کا جائزہ لیتے ہیں جو مرزاقادیانی نے زیر بحث آیت کے متعلق لکھی ہے۔

مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"خدا وہ ہے جس نے امیوں میں سے انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے۔ اور انہیں کتاب اور حکمت سکھلاتا ہے اگرچہ پہلے وہ صریح گمراہ تھے۔
اور ایسا ہی وہ رسول جو ان کی تربیت کررہا ہے ایک دوسرے کی بھی تربیت کرے گا جو انہی میں سے ہوجایئں گے ۔
گویا تمام آیت معہ اپنے الفاظ مقدرہ یوں ہے ۔
"ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ "

یعنی ہمارے خالص اور کامل بندے بجز صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کے اور بھی ہیں۔ جن کا گروہ کثیر آخری زمانہ میں پیدا ہوگا ۔ اور جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی تربیت فرمائی۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس گروہ کی بھی باطنی طور پر تربیت فرمائیں گے۔

(روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 208،209)

مرزاقادیانی کی اس تحریر سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہویئں۔

1۔ اخیر زمانہ میں ایک گروہ کثیر پیدا ہوگا۔
2۔ وہ گروہ خالص اور کامل بندوں پر مشتمل ہوگا۔
3۔ اس گروہ کی باطنی طور پر تربیت خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے ۔

لیجئے مرزاقادیانی کی تحریر کے مطابق بھی آخرین کی تربیت خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے ۔

نہ کہ کوئی ایسا شخص جو قادیان میں پیدا ہو اور خود کو نبی اور رسول کہتا ہو۔

خلاصہ 

پس ثابت ہوا کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے نبی ہیں۔ اب نہ کسی نئے نبی کی ضرورت ہے اور نہ گنجائش ۔
"آیت نمبر 2 "

قادیانی قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد لیا تھا کہ سب انبیاء اور رسولوں کے بعد ایک رسول آئے گا ۔ اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگی میں اگر وہ رسول آگیا تو تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو اس کی تصدیق اور مدد کرنی پڑے گی ۔ قادیانی کہتے ہیں کہ جس رسول کے آنے کی بات اس آیت میں ہورہی ہے اس سے مراد نعوذ باللہ مرزاقادیانی ہے۔

آیئے پہلے آیات اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا علمی رد کرتے ہیں۔

وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَخَذۡتُمۡ عَلٰی ذٰلِکُمۡ اِصۡرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ؕ قَالَ فَاشۡہَدُوۡا وَ اَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ ۔

اور جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں ، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس ( کتاب ) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے ، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے ، اور ضرور اس کی مدد کرو گے ۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے ) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے ) گواہ بن جاؤ ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں ۔
(سورۃ آل عمران آیت نمبر 81)

اس کے علاوہ درج ذیل آیت بھی ہے۔

"وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ وَ مِنۡکَ وَ مِنۡ نُّوۡحٍ وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ۪ وَ اَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا ۙ "

اور ( اے پیغمبر ) وہ وقت یاد رکھو جب ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا تھا اور تم سے بھی ، اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی ۔ اور ہم نے ان سے نہایت پختہ عہد لیا تھا ۔

(سورۃ الاحزاب آیت نمبر 7)


قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

جواب نمبر 1


اس آیت کی تفسیر خود مرزاقادیانی نے لکھی ہے اور اس تفسیر میں مرزاقادیانی نے آنے والے رسول سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو لیا ہے۔

مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"اور یاد کرجب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں گا ۔ اور پھر تمہارے پاس آخری زمانے میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا ۔ تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا۔ اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔۔۔
اب ظاہر ہے کہ انبیاء تو اپنے اپنے وقت پر فوت ہوگئے تھے۔ یہ حکم ہر نبی کی امت کے لئے ہے۔ کہ جب وہ رسول ظاہر ہوتو اس پر ایمان لاو۔

(روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 133،134)

جب خود مرزاقادیانی نے اس آیت کی تفسیر میں آنے والے نبی سے مراد "محمد صلی اللہ علیہ وسلم" کو لیا ہے۔ تو پھر قادیانیوں کی تاویل تو خود ہی باطل ہوجاتی ہے۔

جواب نمبر 2


تمام مفسرین کرام نے اس آیت میں "ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ" سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو لیا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر یوں کی ہے۔

"مابعث اللہ نبیا من الانبیاء الا اخذ علیہ المیثاق لئن بعث اللہ محمدا وھو حئ لیئومنن بہ ولینصرنہ وآصرہ ان یاخذ المیثاق علی امتہ لئن بعث محمد وھم احیاء لیئومنن بہ ولینصرنہ "

اللہ تعالٰی نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا اس سے یہ عہد لیا کہ اگر تمہاری زندگی میں اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا تو ان پر ضرور ایمان لایئں اور ان کی مدد کریں ۔ اس طرح اللہ نے ہر اس نبی کو حکم دیا کہ آپ اپنی امت سے پختہ عہد لیں۔ کہ اگر اس امت کے ہوتے ہوئے وہ نبی (آخرالزماں) تشریف لے آئیں تو وہ امت ضرور ان پر ایمان لائے اور ان کی مدد کرے۔

(تفسیر ابن کثیر صفحہ 177 ،جامع البیان صفحہ 55)

جواب نمبر 3


قادیانی کہتے ہیں کہ اس آیت میں رسول کا لفظ نکرہ ہے۔ تو اس سے کیسے معرفہ مراد ہوسکتی ہے؟؟اسکا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین نے خود نکرہ کو معرفہ بناکر اس کی تخصیص کردی ہے۔

اس کے علاوہ درج ذیل آیات میں بھی رسول کا لفظ نکرہ ہے ۔

1۔ ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا(الجمعہ آیت نمبر 4)
2۔ رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا (البقرۃ آیت نمبر 129)
3۔ لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ(التوبہ آیت 128)

اگر ان آیات میں نکرہ میں تخصیص کرکے رسول کو معرفہ بنایا جاسکتا ہے تو ہماری زیر بحث آیت میں رسول کو معرفہ کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟ ؟
"خلاصہ کلام"

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہماری زیر بحث آیت میں جس نبی کے آنے کے بارے میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے وعدہ لیا جارہا ہے۔ وہ نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
اس بات کو 14 صدیوں کے تمام مفسرین کرام نے بیان کیا ہے۔ اور خود مرزاقادیانی نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ قادیانیوں کی تاویل باطل ہے۔

"آیت نمبر 3 "

قادیانی اجرائے نبوت کے موضوع پر قرآن مجید کی ایک اور آیت پیش کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ اس آیت میں ذکر ہے کہ ایمان والوں کی ایک نشانی بیان ہوئ ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے نبی پر ایمان رکھتے ہیں۔ پس پتہ چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آسکتے ہیں۔

آیئے پہلے آیت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں اور پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا علمی رد کرتے ہیں۔

"آیت"

"ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ "

"ترجمہ "

"اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں"

جواب نمبر 1


اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی پر ایمان لانے کا بیان نہیں ہورہا بلکہ قیامت کے دن پر ایمان لانے کا بیان ہورہا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کی اگر اس آیت کی تفسیر القرآن بالقرآن کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قیامت کے دن پر ایمان کو اس آیت میں بیان کیا جارہا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل آیت ہماری زیر بحث آیت کی تفسیر القرآن بالقرآن ہے۔

"وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ"

"اور حقیقت یہ ہے کہ دار آخرت ہی اصل زندگی ہے"

اس آیت سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ آخرت سے مراد قیامت اور قیامت کے بعد کی زندگی ہے۔

جواب نمبر 2


قرآن پاک میں 50 سے زائد مرتبہ آخرت کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ہرجگہ آخرت کے لفظ سے قیامت اور قیامت کے بعد کی زندگی مراد ہے۔ لہذا قرآن کے اسلوب کے مطابق ہماری زیر بحث آیت میں بھی قیامت اور قیامت کے بعد یعنی آخرت کی زندگی مراد ہے۔


جواب نمبر 3


اس آیت سے مرزاقادیانی نے بھی آخرت کی زندگی مراد لی ہے۔

مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"طالب نجات وہ ہے جو خاتم النبیین پیغمبر آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ اتارا گیا اس پر ایمان لائے۔ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ۔ اور طالب نجات وہ ہے جو پچھلی آنے والی گھڑی یعنی قیامت پر یقین رکھے اور جزا اور سزا کو مانتا ہو"

(الحکم 10 اکتوبر 1904ء، خزینتہ العرفان جلد 1 صفحہ 78)

مندرجہ بالا حوالے میں مرزاقادیانی نے خود تسلیم کیا ہے کہ آخرت سے مراد قیامت اور قیامت کے بعد کی زندگی ہے۔ لہذا قادیانیوں کا باطل استدلال ان کے گرو مرزاقادیانی کے نزدیک بھی باطل ہے۔


جواب نمبر 4

قادیانیوں کے پہلے نام نہاد خلیفہ حکیم نورالدین نے بھی آخرت سے مراد آخرت کی گھڑی لی ہے۔

(البدر 4 فروری 1909ء)

"خلاصہ کلام "

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قادیانیوں کا اس آیت سے کیا گیا استدلال خود مرزاقادیانی اور حکیم نورالدین کے نزدیک بھی باطل ہے اور آخرت سے مراد قیامت اور قیامت کے بعد کی زندگی ہے۔

"آیت نمبر 4"

"ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمۡ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعۡمَۃً اَنۡعَمَہَا"

"یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اللہ کا دستور یہ ہے کہ اس نے جو نعمت کسی قوم کو دی ہو"

(سورۃ الانفال آیت نمبر 53)


قادیانی اس آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبوت اللہ تعالٰی کی نعمت ہے ۔ اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نبوت والی نعمت سے کیوں محروم ہوسکتی ہے۔

قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

جواب نمبر 1


جس طرح نبوت اللہ تعالٰی کی نعمت ہے اسی طرح شریعت بھی اللہ تعالٰی کی نعمت ہے۔ پس اگر قادیانیوں کے نزدیک شریعت والی نعمت ختم ہوسکتی ہے تو بغیر شریعت کے نعمت کیوں ختم نہیں ہوسکتی۔

(یاد رہےقادیانی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شریعت والا نبی نہیں آسکتا )

جواب نمبر 2


اگر نبوت کو قادیانی نعمت سمجھتے ہیں تو پھر اس نعمت کو مرزاقادیانی کے بعد بھی جاری رہنا چاہیے تھا حالانکہ قادیانی مرزاقادیانی کے بعد نبوت کو بند سمجھتے ہیں۔ اگر قادیانیوں کے نزدیک نبوت نعمت ہے تو مرزاقادیانی کے بعد کیوں بند ہے؟

جواب نمبر 3


ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ نبوت کی تکمیل ہوچکی ہے ۔ جس طرح سورج کے نکلنے کے بعد کسی چراغ کی ضرورت نہیں رہتی اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد کسی بھی قسم کی نئی نبوت کی ضرورت نہیں ہے۔

چنانچہ قرآن مجید میں اسلام کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے۔

"تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ بِاِذۡنِ رَبِّہَا"

"اپنے رب کے حکم سے وہ ہر آن پھل دیتا ہے"
(سورۃ ابراہیم آیت نمبر 25)

یعنی شجرہ اسلام قیامت تک سرسبز و شاداب اور فیضان رساں رہے گا۔ اسلام کا فیضان قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔

پس اللہ تعالٰی نے خود بتادیا کہ اسلام کا فیضان قیامت تک منقطع نہیں ہوگا تو اس اس سے نئے نبی کی گنجائش خودبخود ہی ختم ہوجاتی ہے۔

"خلاصہ کلام "

نبوت ایک نعمت ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے اس نعمت کی تکمیل ہوچکی ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ایسی کامل نبوت ہے کہ اب تاقیامت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہی چلے گی۔

No comments:

Post a Comment