5 Dec 2017

"ختم نبوت کورس"سبق نمبر 8

"احتساب قادیانیت"

"ختم نبوت کورس"

سبق نمبر 8

"اجرائے نبوت پر6 احادیث کے بارے میں قادیانی شبہات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات "

"حدیث نمبر 1"

"قادیانیوں کا باطل استدلال "


قادیانی ابن ماجہ کی درج ذیل روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبوت جاری ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک نئے نبی آسکتے ہیں۔

آیئے پہلے حدیث اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ الْبَاهِلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مِقْسَمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ عَاشَ لَعَتَقَتْ أَخْوَالُهُ الْقِبْطُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا اسْتُرِقَّ قِبْطِيٌّ .

ترجمہ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کا انتقال ہو گیا، تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، اور فرمایا: جنت میں ان کے لیے ایک دایہ ہے، اور اگر وہ زندہ رہتے تو صدیق اور نبی ہوتے، اور ان کے ننہال کے قبطی آزاد ہو جاتے، اور کوئی بھی قبطی غلام نہ بنایا جاتا ۔

(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1475)


قادیانی اس روایت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر نبوت جاری نہ ہوتی ختم ہوچکی ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیوں فرماتے کہ اگر ابراہیم رضی اللہ عنہ زندہ رہتے تو نبی ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح فرمانا ہمیں بتاتا ہے کہ نبوت جاری ہے اور نئے نبی آسکتے ہیں۔

قادیانیوں کے باطل استدلال کے جوابات


قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔

جواب نمبر 1


ابن ماجہ میں ہی ایک اور روایت موجود ہے جو اس روایت کی واضح تشریح کرتی ہے۔ وہ روایت درج ذیل ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى:‏‏‏‏ رَأَيْتَ إِبْرَاهِيمَ ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَاتَ وَهُوَ صَغِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَكُونَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيٌّ لَعَاشَ ابْنُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ .

ترجمہ

(روایت کرنے والے راوی اسماعیل کہتے ہیں کہ)میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے ابراہیم کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: ابراہیم بچپن ہی میں انتقال کر گئے، اور اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا نبی ہونا مقدر ہوتا تو آپ کے بیٹے زندہ رہتے، لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1345)

اس روایت سے پتہ چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے اس لئے فوت ہوگئے کیونکہ نبوت جاری نہیں ہے ختم ہوگئ ہے۔

کیونکہ اگر وہ زندہ رہتے تو ان میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی ۔


جواب نمبر 2


اس روایت پر محدثین نے کلام کیا ہے اور اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس لئے قرآن کی نص اور صحیح روایات کے ہوتے ہوئے ایک ضعیف اور کمزور روایت کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔
چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں جہاں محدثین نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔

1۔ شیخ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ اس قول کے کیا معنی ہیں کیوں کہ یہ کہاں ہے کہ ہر نبی کا بیٹا نبی ہو۔ اس لئے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نبی نہیں تھے۔

(انجاح صفحہ 108)

2۔ علامہ ابن حجر رح نے فرمایا ہے کہ اس روایت کا راوی "ابوشیبہ ابراهیم بن عثمان" متروک الحدیث ہے۔

(تقریب التہذیب صفحہ 25)

3۔ امام نووی رح نے تہذیب الاسماء میں لکھا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے۔ غیب کی باتوں پر جسارت ہے ۔ بڑی بےتکی بات ہے۔

(موضوعات کبیر صفحہ 58)

4۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رح فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں۔اس کی سند میں ابوشیبہ ابراهیم بن عثمان ہے جو ضعیف ہے۔

(مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 677)

5۔ امام ترمذی کی رائے یہ ہے کہ یہ منکر الحدیث ہے۔

(تہذیب التہذیب جلد 1 صفحہ 144،145)

جواب نمبر 3


اگر یہ روایت صحیح بھی ہوتی اور اس کے راوی پر بھی جرح نہ ہوتی پھر بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت جاری ہوتی اور حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ زندہ رہتے تو ان میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی۔ جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی لیکن وہ نبی نہیں تھے کیونکہ نبوت کا دروازہ بند ہے۔

جواب نمبر 4


اس روایت میں ایک حرف "لو" استعمال ہوا ہے۔ اور حرف "لو" وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں یہ معنی ہوکہ یہ کام نہیں ہوسکتا لیکن بطور مثال کے بیان کیا گیا ہو۔ جیسے قرآن پاک میں ارشاد ہے۔

لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ۔

اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے ۔ لہذا عرش کا مالک اللہ ان باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں ۔

(سورہ الانبیاء آیت نمبر 22)

اس آیت میں حرف "لو" استعمال کرکے یہ بیان کیا گیا ہے اگر اللہ کے علاوہ کوئی اور الہ زمین و آسمان میں ہوتا تو زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ اب یہ تو یقینی بات ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور الہ نہیں لیکن حرف "لو" استعمال کر کے اس کو بطور مثال ذکر کیا گیا ہے۔

اسی طرح اس روایت میں بھی بطور مثال ذکر ہے کہ ویسے تو نبوت کا دروازہ بند ہے لیک
ن بالفرض اگر نبوت کا دروازہ کھلا ہوتا تو حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی ۔

"حدیث نمبر 2"


قادیانی کہتے ہیں کہ:حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں:
’’ قولوا خاتم النبیین ولا تقولوا لانبی بعدہ"
"یہ تو کہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں لیکن یہ نہ کہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا "

"مجمع البحار ص 85 درمنشور جلد 5 صفحہ 204‘‘

قادیانی کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک نبوت جاری تھی۔

"قادیانیوں کے باطل استدلال کے علمی تحقیقی جوابات "

قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

جواب نمبر 1


اماں عائشہ صدیقہ ؓ کے جس قول پر قادیانی اعتراض کرتے ہیں اسی طرح کا ایک قول حضرت مغیرہ ؓ سے بھی منقول ہے۔

قول اماں عائشہ صدیقہ ؓ اور قول حضرت مغیرہ ؓ کی دونوں مکمل عبارتیں بمع ترجمہ وتشریح ملاحظہ فرمائیں ۔

’’ وفے حدیث عیسیٰ انہ تقتل الخنزیر ویکسر الصلیب ویزید فے الحلال اے یزید فی حلال نفسہ بان یتزوج ویولد لہ وکان لم یتزوج قبل رفعہ الی السماء فزاد بعد الہبوط فی الحلال فہینذ یومن کل احد من اھل الکتب یتیقن بانہ بشروعن عائشہ قولوا انہ خاتم الانبیاء ولا تقولو الانبی بعدہ وھذا ناظر الی نزول عیسیٰ وھذا ایضالا ینافی حدیث لانبی بعدہ لانہ اراد لانبی ینسخ شرعہ ۰

(تکلمہ مجمع البحار صفحہ 85)

(حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد خنزیر کو قتل کریں گے۔ اور صلیب کو توڑیں گے اور اپنے نفس کی حلال چیزوں میں اضافہ کریں گے یعنی نکاح کریں گے اور آپ کی اولاد ہوگی ۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے نکاح نہیں فرمایا تھا۔ آسمان سے اترنے کے بعد نکاح فرمائیں گے۔ (جو لوازم بشریت سے ہے) پس اس حال کو دیکھ کر ہر شخص اہل کتاب میں سے ان کی نبوت پر ایمان لے آئے گا اور اس بات کا یقین کرے گا کہ عیسیٰ علیہ السلام بلاشبہ ایک بشر ہیں۔ خدا نہیں جیسا کہ نصاریٰ اب تک سمجھتے رہے۔ اور عائشہ صدیقہ ؓ سے جو یہ منقول ہے کہ وہ فرماتی تھیں کہ آپ ﷺ کو خاتم النبیین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ ان کا یہ ارشاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کو پیش نظر رکھ کر تھا۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ دنیا میں آنا حدیث لانبی بعدی کے منافی نہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد حضور ﷺ ہی کی شریعت کے متبع ہوں گے۔ اور لانبی بعدی کی مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا نبی نہ آئے گا جو آپ کی شریعت کا ناسخ ہو۔)

اور اسی قسم کا قول حضرت مغیرہ ابن شعبہ ؓسے منقول ہے:

’’ عن الشعبی قال قال رجل عند المغیرۃ بن شعبۃ صلی اﷲ علی محمد خاتم الانبیاء لانبی بعدہ فقال المغیرہ بن شعبۃ حسبک اذا قلت خاتم الانبیاء فانا کنا نحدث ان عیسیٰ علیہ السلام خارج ھو خرج فقد کان قبلہ وبعدہ۰
تفسیر درمنشور جلد 5 صفحہ 204)

(شعبی ؒ سے منقول ہے کہ ایک شخص نے حضرت مغیرہ ؓ کے سامنے یہ کہا کہ اﷲ تعالیٰ رحمت نازل کرے محمد ﷺ پر جو خاتم الانبیاء ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔ حضرت مغیرہ ؓ نے فرمایا خاتم الانبیاء کہہ دنیا کافی ہے۔ یعنی لانبی بعدہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہم کو یہ حدیث پہنچی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام پھر تشریف لائیں گے۔ پس جب وہ آئیں گے تو ایک ان کا آنا محمد ﷺ سے پہلے ہوا اور ایک آنامحمد ﷺ کے بعد ہوگا۔)

پس جس طرح مغیرہ ؓ ختم نبوت کے قائل ہیں مگر محض عقیدہ نزول عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی حفاظت کے لئے لانبی بعدی کہنے سے منع فرمایا اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ختم نبوت کے عقیدہ کو تو خاتم النبیین کے لفظ سے ظاہر فرمایا اور اس موہم لفظ کے استعمال سے منع فرمایا کہ جس لفظ سے عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے خلاف کا ابہام ہوتا تھا۔ ورنہ حاشایہ مطلب ہر گز نہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضور ﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت کو جائز کہتی ہیں۔

جواب نمبر 2


رحمت دو عالم ﷺ فرماتے ہیں :’’ انا خاتم النبیین لانبی بعدی۰‘‘اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا قول:’’ ولا تقولوا لانبی بعدہ۰‘‘ یہ صریحاً اس فرمان نبوی ﷺ کے مخالف ہے۔

قول صحابہ ؓ وقول نبوی ﷺ میں تعارض ہوجائے تو حدیث وفرمان نبوی کو ترجیح ہوگی۔ پھر لانبی بعدی حدیث شریف متعدد صحیح اسناد سے مذکور ہے۔ اور قول عائشہ صدیقہ ؓ ایک موضوع اور بے سند قول ہے۔ صحیح حدیث کے مقابلہ میں یہ کیسے قابل حجت ہوسکتا ہے؟

جواب نمبر 3


خود حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ایک صحیح روایت منقول ہے۔

" لم یبق من النبوۃ بعدہ شیٔ الا مبشرات "

"(حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ) اچھے خوابوں کے علاوہ نبوت میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہا"

(کنزالعمال جلد 8 صفحہ 33)

اس واضح فرمان کے بعد اس بے سند قول کو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف منسوب کرنے کا کوئی جواز باقی رہ جاتا ہے؟

جواب نمبر 4


قادیانی دجل ملاحظہ ہو کہ وہ اس قول کو جو مجمع البحار میں بغیر مرفوع متصل سند کے نقل کیا گیا ہے استدلال کرتے وقت بھی آدھا قول نقل کرتے ہیں۔ اس میں ہے ۔

"ھذا ناظر الی نزول عیسیٰ علیہ السلام تکملہ"

یعنی اماں عائشہ صدیقہ ؓ سیدنا عیسی علیہ السلام کے نزول کو ذہن میں رکھ کر یہ فرمارہی ہیں کہ سیدنا عیسی علیہ السلام نے بھی تشریف لانا ہے۔

( سیدنا عیسی علیہ السلام کا مقام نبوت باقی ہے۔ اور دور نبوت ختم ہوچکا ہے۔ اب وہ امتی اور خلیفہ کی حیثیت سے آیئں گے)

(مجمع البحار صفحہ 85)

اماں عائشہ صدیقہ ؓ کا مقصد یہی ہے کہ ان کے ذہن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا مسئلہ تھا۔ یہ نہ کہو کہ آپ ﷺ کے بعد نبی کوئی نہیں(آئے گا) اس لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا۔ یہ کہو کہ آپ ﷺ خاتم النبیین یعنی آپ ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی بنایا نہیں جائے گا۔ اس لئے عیسیٰ علیہ السلام وہ آپ ﷺ سے پہلے نبی بنائے جا چکے ہیں۔

جواب نمبر 5


حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے اس قول کے محدثین نے بہت سے مطلب بیان کئے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔

"پہلا معنی"

اس قول میں بعدہ خبر کے مقام پرآیا ہے۔ اور خبر افعال عامہ یا افعال خاصہ سے مخدوف ہے۔ اس لئے اس کا پہلا معنی یہ ہوگا :’’ لانبی مبعوث بعدہ۰‘‘ حضور ﷺ کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی۔ مرقات حاشیہ مشکوٰۃ شریف پر یہی ترجمہ مراد لیا گیا ہے جو صحیح ہے۔

"دوسرا معنی "

’’ لانبی خارج بعدہ۰‘‘حضور ﷺ کے بعد کسی نبی کا ظہور نہیں ہوگا۔ یہ غلط ہے اس لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے۔ حضرت مغیرہ ؓ نے ان معنوں سے :’’ لاتقولوا لا نبی بعدہ۰‘‘کی ممانعت فرمائی ہے۔ جو سوفیصد ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے۔

"تیسرا معنی "

’’ لانبی حیی بعدہ۰‘‘حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی زندہ نہیں۔ ان معنوں کوسامنے رکھ کرحضرت عائشہ ؓنے: ’’ لاتقولوا لانبی بعدہ۰‘‘فرمایا۔ اس لئے کہ خود ان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی روایات منقول ہیں۔

جواب نمبر 6


مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ

’’ دوسری کتب حدیث (بخاری ومسلم کے علاوہ)صرف اس صورت میں قبول کے لائق ہوں گے کہ قرآن اور بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث سے مخالف نہ ہوں۔‘‘

(روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 60)

جب صحیحین کے مخالف مرزا کے نزدیک کوئی حدیث کی کتاب قابل قبول نہیں تو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف منسوب بے سند قول صحیحین کے مخالف قابل قبول ہوگا؟

نیز مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

’’ حدیث لانبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا۔‘‘

(روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 217)

کیا یہ ممکن ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ایسی مشہور وصحیح حدیث کے مخالف یہ قول ارشاد فرمایا ہو؟

جواب نمبر 7


حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا یہ قول اگر صحیح ہوتا توبھی مرزائیت کے منہ پر جوتا تھا۔ اس لئے کہ بخاری شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ہی روایت ہے کہ

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ ""سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَدْرِ أَمِنَ الْبَيْتِ؟،‏‏‏‏ هُوَ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَمَا لَهُمْ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِي الْبَيْتِ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمُ النَّفَقَةُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَعَلَ ذَلِكَ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِالْجَاهِلِيَّةِ فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ أَنْ أُدْخِلَ الْجَدْرَ فِي الْبَيْتِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ أُلْصِقَ بَابَهُ بِالْأَرْضِ"".

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا حطیم بھی بیت اللہ میں داخل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، پھر میں نے پوچھا کہ پھر لوگوں نے اسے کعبے میں کیوں نہیں شامل کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی پڑ گئی تھی۔ پھر میں نے پوچھا کہ یہ دروازہ کیوں اونچا بنایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی تمہاری قوم ہی نے کیا تاکہ جسے چاہیں اندر آنے دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم کی جاہلیت کا زمانہ تازہ تازہ نہ ہوتا اور مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دل بگڑ جائیں گے تو اس حطیم کو بھی میں کعبہ میں شامل کر دیتا اور کعبہ کا دروازہ زمین کے برابر کر دیتا۔

(بخاری شریف حدیث نمبر 1584)

آپ ﷺ نے فرمایا کہ قوم تازہ تازہ ایمان لائی ہے ورنہ میں بیت اﷲ شریف کو توڑ کر اس کے دو دروازے کردیتا۔ ایک سے لوگ داخل ہوتے دوسرے سے نکل جاتے۔

یہ روایت حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے بخاری شریف میں موجود ہے۔ کوئی شخص لانبی بعدی کی روایت سے قادیانی دجالوں کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا انکار نہ کردے۔ اس لئے فرمایا کہ یہ نہ کہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔

جواب نمبر 8


حضرت عائشہ صدیقہ ؓکی طرف اس قول کی نسبت صریحاً بے اصل وبے سند ہے۔ دنیا کی کسی کتاب میں اس کی متصل مرفوع سندمذکور نہیں۔ ایک بے سند قول سے نصوص قطعیہ اور احادیث متواترہ کے خلاف استدلال کرنا صرف قادیانی دجل وفریب ہے۔


جواب نمبر 9


اماں عائشہ صدیقہ ؓ سے منسوب اس قول کی تفصیلی تحقیق ملاحظہ فرمائیں ۔

معزز قارئین! اللہ کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع ، متصل اور صحیح احادیث مختلف کتب احادیث میں ماجود ہیں جنکے اندر اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " لانبی بعدی " میرے بعد کوئی نبی نہیں ،

( یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے صحیح بخاری حدیث نمبر 3455 ، صحیح مسلم حدیث نمبر 1842 میں ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے صحیح مسلم حدیث نمبر 2404 میں اور حضرت ثوبان بن بجداد رضی اللہ عنہ نے سنن ترمذی حدیث نمبر 2219 ، سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4252 اور مستدرک حاکم میں حدیث نمبر 8390 میں صحیح اسناد کے ساتھہ بیان کی )

جب خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ فرمائے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اپ کے بعد کوئی کہے کہ " لانبی بعدی " نہ کہو ؟ اور کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح اور صریح الفاظ کے بعد کسی صحابی کی طرف منسوب علم اصول احادیث کی رو قابل قبول رہ جاتی ہے ؟؟ جس میں کسی صحابی کا اپنا قول فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹکراتا ہو ؟؟ ہرگز نہیں

بلکہ اصول حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع متصل صحیح حدیث کے مقابلے میں اگر کسی صحابی کا اپنا قول چاہے بظاہر متصل اور صحیح سند کے ساتھہ بھی ملے تو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے اسے قبول نہیں کیا جائے گا . چہ جائیکہ وہ قول غیر مستند ہو ۔

مرزائی دھوکے باز اور شعبدہ باز ہمیشہ دجل وفریب دیتے رہتے ہیں ، انہیں وہ احادیث نبویہ نظر نہیں آتی یا وہ دیکھنا نہیں چاہتے جنکے اندر خود خاتم الانبیاء نے فرمایا " لانبی بعدی " انہیں اگر کسی کتاب سے غیر مستند بات نظر آجائے جو کسی صحابی کی طرف منسوب ہو تو وہ اس کو اچھال اچھال کر دھوکے دیں گے ۔

ایسا ہی ایک دھوکہ یہ دیا جاتا ہے کہ " امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے تفسیر درمنشور میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ اپ نے فرمایا صرف یہ کہا کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور یہ مت کہا کرو کے " لانبی بعدی " یعنی اپ کے بعد کوئی نبی نہیں "

اگرچہ امام سیوطی نے اسی جگہ اس سے پہلے متعدد مستند اور صحیح روایات لکھی ہیں جو مرزائی عقیدہ کا پاش پاش کرتی ہیں ، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب اس قول کے بعد وہیں امام سیوطی نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا قول بھی ذکر کیا ہے جسکے اندر اس بات کی وضاحت ہے کہ لانبی بعدی کیوں نہ کہا کرو وہ اس وجہ سے تھا کہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نے دوبارہ نہیں آنا ، لیکن مرزائی اس روایت کا ذکر نہیں کریں گے ۔

آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب یہ قول سند اور علم اصول حدیث کے مطابق صحیح ہے ؟

تفسیر درمنشور میں امام سیوطی نے خود تو اس روایت کی کوئی سند نہیں بیان کی ، وہاں مصنف ابن ابی شیبہ کا حوالہ دیا ہے ، جب ہم نے مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف رجوع کیا تو وہاں اس کتاب کے مختلف نسخوں اور اڈیشنوں میں اس روایت کی سند مختلف ہے ، پرانے زمانے کے نسخوں میں اس روایت کی سند میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے والے راوی کا نام " جریر بن حازم " ہے یعنی جریر بن حازم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان کوئی اور راوی نہیں ہے ،

بعد میں کچھ نسخوں میں اس روایت کی سند میں" جریر بن حازم" اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان مزید راوی " محمد " کا اضافہ ہے ( جس سے مراد مشہور تابعی محمد بن سرین رحمتہ اللہ علیہ ہے )

مصنف ابن ابی شیبہ کے جن ایڈیشنوں میں راوی جریر بن حازم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کوئی اور راوی نہیں ہے وہاں یہ روایت منقطع ٹھہرتی ہے .کیونکہ" یہ جریر بن حازم تقریباً 90 ہجری میں پیدا ہوۓ"

( بحوالہ تہذیب التہذیب جلد 1 ص 295 )

اور "حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات تقریباً 58 ہجری میں ہو چکی تھی "

اس طرح جریر بن حازم تو پیدا ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے تقریباً 30 سال بعد ہوۓ ،

لہذا ایسا ممکن ہی نہیں کہ انہوں نے یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہو . اسی وجہ سے یہ روایت نہ قابل اعتبار ہے .

مصنف ابن ابی شیبہ کے دوسرے نسخوں میں جن میں جریر بن حازم کے بعد ایک راوی " محمد " کا ذکر ہے اس سے مراد تابعی محمد بن سرین رحمتہ اللہ علیہ ہیں ،

اور دلچسپ بات یہ ہے کہ محمد بن سرین کی بھی ملاقات بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہے ، مشہور امام جرح وتعدیل ابن ابی حاتم لکھتے ہیں " ابن سرین لم یسمع من عائشة شیئاََ " ابن سرین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کچھ نہیں سنا

( کتاب المراسیل لابن ابی حاتم صفحہ 188 )

یہی بات حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی نقل کی ہے

( تہذیب التہذیب جلد 3 ص 587 )

اس طرح ثابت ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب یہ روایت منقطع یا مرسل ہے اور اصول احادیث کی رو سے قابل اعتبار نہیں ، بلکہ مرفوع اور متصل احادیث کے ہوتے ہوۓ مردود اور ناقابل اعتماد ہے .

پھر مزے کی بات ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتی ہیں کہ اپ نے فرمایا :

" لایبقی بعدی من النبوة الا المبشرات ، قالو یا رسول اللہ وما المبشرات ؟ قال : الرؤیا الصالحة یراھا الرجل أو تری له "

میرے بعد مبشرات کے علاوہ نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ، صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبشرات کیا ہیں ؟ تو اپ نے فرمایا : نیک آدمی جو خواب دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتا ہے

( مسند احمد جلد 6 ص 129 )

ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے منسوب اس قول کی کوئی مرفوع متصل سند نہیں ہے اور ایک بے سند قول کو کیسے صحیح احادیث کے مقابلے میں قبول کیا جاسکتا ہے۔

اور دوسری بات یہ کہ بالفرض محال اگر اس قول کو صحیح بھی تسلیم کر لیں تو اماں عائشہ صدیقہ ؓ نے یہ بات اس لئے فرمائ ہے کیونکہ سیدنا عیسی علیہ السلام نے تشریف لانا ہے۔ اور ان کے آنے سے نبیوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوگا۔

حدیث نمبر 3


قادیانی ایک اور حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ
حضرت محمد صلی الله عليه وسلم نے مسجد نبوی کے بارے میں فرمایاکہ "مسجدی آخر المساجد " یعنی یہ مسجد آخری مسجد ہے۔

توظاہر ہے کہ اپکی مسجد کے بعد دنیا میں ہر روز مسجدیں بن رہی ہیں تو اپنے خاتم النبیین ہونے کا بھی یہی مطلب ہوگا کہ اپ کے بعد نبی بن سکتے ہیں۔

قادیانیوں کے اس باطل استدلال کا جواب ملاحظہ فرمائیں ۔

جواب نمبر 1


اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ سارے انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت مبارکہ تھی کہ وہ مسجد بناتے تھے ۔ اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی بنوائی تو ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی نے نہیں آنا تھا اور انبیاء کرام علیہم السلام کی جو مسجد بنانے کی سنت تھی اس پر عمل نہیں ہونا تھا اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد نبوی انبیاء کرام علیہم السلام کی آخری مسجد ہے۔

یہ حدیث تو ختم نبوت کی دلیل بنتی ہے نہ کہ اجرائے نبوت کی دلیل ہے۔

جواب نمبر 2

اس حدیث میں جہاں مسجدی آخر المساجد کے الفاظ آئے ہیں وہاں احادیث میں آخر مساجد الانبیاء کے الفاظ بھی آئے ہیں ۔
( الترغیب والترہیب )

اس کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ

"قال رسول اللہ صلی الله عليه وسلم انا خاتم الانبیاء ومسجدی خاتم مساجد الانبیاء"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں انبیاء کو ختم کرنے والا ہوں اور میری مسجد انبیاء کی مساجد کو ختم کرنے والی ہے"

(کنزالعمال جلد 6 صفحہ 256)

لیجئے اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے بات بالکل واضح ہوگئی کہ اس روایت سے مراد یہی ہے کہ مسجد نبوی انبیاء کی آخری مسجد ہے۔

"خلاصہ کلام "

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس روایت سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ نبوت جاری ہے اور نئے نبی آسکتے ہیں۔ بلکہ اس روایت میں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ختم نبوت کو بیان فرمایا ہے کہ جس طرح میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔ اور میرے بعد نبیوں کی تعداد میں کسی ایک نبی کا بھی اضافہ نہیں ہوگا۔

اسی طرح میری مسجد بھی انبیاء کرام علیہم السلام کی مساجد کو ختم کرنے والی ہے۔ اب انبیاء کرام علیہم السلام کی بنوائی گئی مساجد میں بھی کسی ایک مسجد کا اضافہ نہیں ہوگا۔

حدیث نمبر 4


قادیانی ایک اور حدیث پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو خاتم المہاجرین فرمایا ہے۔

اور ہجرت تو تاقیامت جاری رہے گی ۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو خاتم النبیین فرمایا ہے۔ اور نبوت بھی تاقیامت جاری رہے گی۔


سب سے پہلے حدیث اور اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ۔

"اطمئن یا عم فانک خاتم المہاجرین فی الہجرۃ کما انا خاتم النبیین فی النبوۃ"

(حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے چچا آپ اطمینان رکھیں کیونکہ آپ مہاجرین کو ختم کرنے والے ہیں۔ جس طرح میں نبوت میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں)

اب اس باطل استدلال کے جوابات ملاحظہ فرمائیں ۔


جواب نمبر 1


سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے جو الفاظ ارشاد فرمائے وہ ملاحظہ فرمائیں ۔

"اطمئن یا عم فانک خاتم المہاجرین فی الہجرۃ کما انا خاتم النبیین فی النبوۃ"

(حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے چچا آپ اطمینان رکھیں کیونکہ آپ مہاجرین کو ختم کرنے والے ہیں۔ جس طرح میں نبوت میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں)

اب اصل واقعہ ملاحظہ فرمائیں ۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو خاتم المھاجرین اس لئے کہا گیا تھا کیونکہ مکہ فتح ہونے سے پہلے وہ آخری مھاجر تھے جو مکہ مکرمہ سے ہجرت کر رہے تھے لیکن جب دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فوج کے ہمراہ مکہ فتح کرنے کے لئے تشریف لا رہے ہیں تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے افسوس ظاہر کیا کے میں ہجرت کی فضیلت سے محروم رہا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو تسلی اور حصول ثواب کی بشارت دیتے ہوۓ فرمایا کہ آپ خاتم المھاجرین ہیں ۔

اس لئے کے مکہ مکرمہ سے واقعی ہجرت کرنے والے آخری مهاجر حضرت عباس تھے ، مکہ مکرمہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ایسا فتح ہوا جو قیامت کی صبح تک دارالسلام رہے گا تو مکہ مکرمہ سے آخری مہاجر حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہی ہوئے ۔

جواب نمبر 2

ہجرت دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف کی جاتی ہے۔ اور مکہ مکرمہ قیامت تک دارالسلام رہے گا ۔ مکہ مکرمہ سے قیامت تک ہجرت نہیں ہوگی۔

اس لئے حضرت عباس رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے والے آخری مہاجر تھے۔ کیونکہ ان کے بعد قیامت تک مکہ مکرمہ سے کوئی ہجرت نہیں کرے گا ۔ کیونکہ مکہ مکرمہ قیامت تک دارالاسلام رہے گا۔

حدیث نمبر 5


قادیانی ترمذی شریف کی درج ذیل روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس روایت میں خواب کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دیا گیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ نبوت جاری ہے۔ اور نئے نبی بھی آسکتے ہیں۔

سب سے پہلے ترمذی شریف کی روایت اور اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ۔

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ ۔

(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے)

(ترمذی شریف روایت نمبر 2271)

"قادیانیون کے باطل استدلال کا جواب "

قادیانیوں کے اس باطل استدلال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح دھاگے کو کپڑا نہیں کہ سکتے۔ جس طرح اینٹ کو مکان نہیں کہ سکتے۔ جس طرح آدمی کے کٹے ہوئے ناخن کو انسان نہیں کہ سکتے اسی طرح سچے خوابوں کو نبوت بھی نہیں کہ سکتے۔

حدیث نمبر 6


قادیانی مندرجہ ذیل حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے بعد 30 جھوٹے دجال نبوت کا دعوی کریں گے ۔ اور اب 30 جھوٹے مدعیان نبوت کی تعداد پوری ہوچکی ہے۔ لہذا اب سچے انبیاء آیئں گے ۔

سب سے پہلے حدیث اور اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ ثَلَاثُونَ دَجَّالُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ .

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تیس دجال ظاہر نہ ہو جائیں، وہ سب یہی کہیں گے کہ میں اللہ کا رسول ہوں )

(ابوداؤد شریف حدیث نمبر 4333)
(ترمذی شریف حدیث نمبر 2218)


قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

جواب نمبر 1


مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دنیا کے آخر تک قریب 30 کے دجال پیدا ہوں گے "

(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 197)

یہاں مرزاقادیانی نے خود تسلیم کیا ہے کہ دنیا کے آخر تک ایسے جھوٹے دجال آیئں گے ۔ یعنی زمانے کی قید نہیں ہے کہ اس زمانے تک ایسے دجال آیئں گے اور اس زمانے کے بعد ایسے دجال نہیں آسکتے۔

مرزاقادیانی کی اس تحریر سے پتہ چلا کہ دجالوں کی تعداد پوری نہیں ہوئ بلکہ ابھی مزید ایسے جھوٹے دجالوں نے آنا ہے جو نبوت کا دعوی کریں گے۔

جواب نمبر 2


اس حدیث میں جن دجالوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ بڑے بڑے دجال ہیں جو نبوت کا دعوی کریں گے ۔ اور ان کا فتنہ کچھ دیر باقی رہے گا ۔

جن کا فتنہ باقی نہیں رہا اور ان کا فتنہ تھوڑی دیر چلا ۔ ان کا ذکر نہیں ہے۔

اور نواب صدیق حسن صاحب نے لکھا ہے کہ

"آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس امت میں تیس دجالوں کی آمد کی خبر دی تھی ۔ وہ پوری ہوکر 27 کی تعداد مکمل ہوچکی ہے"

(حجج الکرامتہ )

اب مرزاقادیانی کو بھی ان دجالوں میں شامل کر کے ایسے جھوٹے دجالوں کی تعداد 28 ہوچکی ہے۔
"خلاصہ کلام "
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس روایت سے نبوت کا جاری رہنا ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی بہت سے لوگ جو جھوٹے ہوں گے وہ نبوت کا دعوی کریں گے ۔ حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالٰی نے مجھ پر رسالت اور نبوت کو منقطع کر دیا ہے اب میرے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی رسول آئے گا ۔ 

No comments:

Post a Comment